پولیس تشدد کی کہانی، انڈیا نے تمل فلم آسکرز کے لیے نامزد کردی

تمل زبان کی ایک سنسنی خیز فلم کو آئندہ برس منعقد ہونے والے آسکرز میں غیرملکی زبان کی بہترین فلم کے ایوارڈ کے لیے انڈیا کی نمائندہ فلم نامزد کیا گیا ہے۔ سدھا جی تلک نے پولیس کی 'بربریت' اور بدعنوانی کے موضوع پر بنائی گئی اس فلم کا جائزہ لیا ہے۔
آندھرا پردیش کے قصبے گنٹر میں رات گئے ایک نوجوان فلم کا آخری شو دیکھنے کے بعد سڑک کنارے چلتا جا رہا ہے۔ پولیس کی ایک گشتی پارٹی اسے روکتی ہے اور اس کا نام پوچھتی ہے۔
نوجوان کا جواب آتا ہے 'افضل'
ایک پولیس اہلکار حقارت سے کہتا ہے القاعدہ؟ دولتِ اسلامیہ؟
وہ جواب دیتا ہے 'میں تمل ناڈو کا مہاجر مزدور ہوں۔'
پھر پولیس اہلکار اسے اٹھا کر تھانے لے جانتے ہیں اور زیرِ حراست تشدد کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
یہ منظر ایک تمل فلم 'وسرانائی' (تفتیش) کا ہے جسے آسکرز کے لیے انڈیا کی جانب سے نامزدگی ملی ہے۔
یہ فلم حقوقِ انسانی کی پامالی کے بارے میں ہے
یہ فلم اس سال وینس انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جہاں اس نے ایمنیسٹی انٹرنیشنل اٹالیہ ایوارڈ جیتا تھا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی تمل فلم بنی تھی۔
'وسرانائی' آندھرا پردیش کے سرحدی علاقے کی کہانی بیان کرتی ہے جہاں ہمسایہ ریاست تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والے چار مزدوروں کو سنگدلی سے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
پولیس تشدد کے ذریعے ان چاروں سے ان جرائم کا اقرار کروانے کی کوشش کرتی ہے جو انھوں نے کیے ہی نہیں کیونکہ پولیس کو یہ کام اصل مجروں کو پکڑنے کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔
بالی وڈ کے فلم ساز انوراگ کشیپ کہتے ہیں: 'یہ فلم انڈیا سینما میں ایک نئی زبان کا اعلان کرتی ہے۔ میں نے طویل عرصے سے انڈیا میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔'
انڈیا کے دیہات اور قصبوں سے بڑی تعداد میں لوگ بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں۔ وسرانائی ان بےگھر اور غریب افراد کے ساتھ پیش آنے والے غیرانسانی سلوک کو پیش کرتی ہے۔ فلم میں انھیں حکام اور ریاستی مشینری کے ہاتھوں دل سوز ظلم کا سامنا کرتے دکھایا گیا ہے۔
فلم کے ڈائریکٹر ویتری مارن نے بی بی سی کو بتایا: 'نقل مکانی کرنے والے مسئلہ نہیں ہیں، انھیں قبول کرنا مسئلہ ہے۔'
فلم میں نقل مکانی کرنے والے تمل بےگھر ہیں، رات کسی پارک میں سوتے ہیں اور دن کے وقت چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے ہیں۔ وہ ان پولیس اہلکاروں کا آسان ہدف ہیں جو ایک امیر شخص کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کی تلاش میں ہیں، جو مشتبہ طور پر تمل ہیں۔
ان چاروں کے حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں اور انھیں بتایا بھی نہیں جاتا کہ وہ حراست میں کیوں ہیں اور اس کی بجائے 'اعترافِ جرم' کے لیے ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ 'کس کا؟' وہ پوچھتے ہیں اور خاصے تشدد کے بعد انھیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ڈاکہ ڈالنے کا اعتراف کریں جس کے بارے میں انھیں کچھ معلوم نہیں تھا۔
یہ فلم بنیادی طور پر ایک تمل رکشہ ڈرائیور این چندرکمار عرف آٹو چندرن کی سوانحی ناول 'لاک اپ' سے ماخود ہے، جنھوں نے 1983 میں ایک ڈھابے پر بیرے کے طور پر اپنی نوجوانی گزاری تھے۔
چندرن اور اس کے ساتھیوں کو گنٹور میں پولیس نے حراست میں لے لیا تھا اور دو ہفتے تک ان پر تشدد کیا گیا تھا، تا کہ وہ ایک جرم کا اعتراف کر لیں جس کے بارے میں وہ جانتے بھی نہیں تھے۔ چندرن بچ گئے اور انھوں نے اپنے ذاتی تجربات کو قلم بند کیا۔
مارن کہتے ہیں: 'اس ناول نے مجھے احساس دلایا کہ ہمارے اردگرد تشدد کا خطرہ کتنے قریب موجود رہتا ہے اور ہم اس کا کس قدر شکار ہو سکتے ہیں۔'
زیرِ حراست تشدد کے مناظر دیکھنے میں تکلیف دہ ہوتے ہیں جبکہ چاروں افراد میں سے پانڈی نامی ایک شخص اعتراف کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ پانڈی پوچھتا ہے: 'ہم اس بارے میں جھوٹ کیوں بولیں جب ہم نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں؟'، جس کے بعد اس پر تشدد اور مارپیٹ کی جاتی ہے۔
انڈیا میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق سنہ 2001 سے 2010 کے درمیان پولیس اور عدالتی تحویل میں 14 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر اموات زیرحراست تشدد کا نتیجہ ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے انھیں عموما بیماری، فرار ہونے کی کوشش، خودکشی اور حادثات قرار دیا جاتا ہے۔
مارن تسلیم کرتے ہیں 42 دنوں میں شوٹ ہونے والی 'وسرانائی' ایک تکلیف دہ تجربہ تھا۔ شوٹنگ کے دوران اداکار زخمی ہوئے اور کچھ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔
مارن کہتے ہیں کہ فلم کی تکمیل کے بعد تمام عملہ اس جذباتی تجربے اثرات زائل کرنے کے لیے تھیراپی کے لیے بھی گئے۔
'وسرانائی' معاشرتی طبقات اور اختیار سے جڑی ایک متوازی کہانی بھی بیان کرتی ہے۔
مارن کہتے ہیں: 'اس نظام میں تشدد کا نشانہ بننے والے غریب، بےآواز اور اپنا بچاؤ نہ کر سکنے والے ہیں۔'
ایک طرف یہ ایسی پولیس فورس دکھاتی ہے جس کے ہاتھ دانستہ اور غیردانستہ اموات دونوں سے رنگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سے بدعنوان افراد کے درمیان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاستدانوں اور پولیس کا گٹھ جوڑ ہے۔