طیفا کے نئے باب
- حسن زیدی
- تجزیہ کار

،تصویر کا ذریعہTeefa in Trouble
ہو سکتا ہے آپ نے اب تک ’طیفا اِن ٹربل‘ نہ دیکھی ہو۔ لیکن یہ ناممکنات میں سے ہے کہ آپ کو اِس فلم کے گِرد تنازعے کی خبر بھی نہ ہو۔
پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع کے علی ظفر، جو اِس فلم کے سٹار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے شریک لکھاری اور پروڈیوسر بھی ہیں، کے خلاف میشا کو جنسی ہراساں کرنے کے الزامات کافی عرصے سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنے ہوئے ہیں اور اُن کی وجہ سے ایک مہم بھی چلی کہ فلم کا بائیکاٹ کیا جائے۔
علی ظفر نے، جو اِن الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں، میشا شفیع کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ بھی کر رکھا ہے جو اب تک عدالتوں میں زیرِ التوا ہے۔ اِن الزامات کے حوالے سے ظاہر ہے میں یہاں کچھ کہنے سے قاصر ہوں لیکن افسوس ضرور ہے کہ اس تنازعے کی وجہ سے "طیفا اِن ٹربل" پر ایک سایہ سا پڑ گیا ہے کیونکہ یہ فلم پاکستان میں بننے والی بہترین فلموں میں سے یقیناً ایک ہے۔
’طیفا اِن ٹربل‘ کوئی بہت گہری فلم نہیں ہے۔ یہ ایک مسالے سے بھرپور ’یانرہ‘ فلم ہے، یعنی ایک پاکستانی سپر ہیرو کی کہانی جیسے کہ ’مولا جٹ‘ تھی۔ اس ’یانرہ‘ یا اس قسم کی فلم میں حقیقت کو تھوڑا بہت ایک طرف رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
اس کا ہیرو، طیفا، اندرونِ شہر لاہور کا نچلے طبقے کا ایک باسی ہے جو عام لوگوں سے بڑھ چڑھ کر بھاگ دوڑ کرسکتا ہے، جو دس بیس غنڈوں کو پلک جھپکتے ڈھیر کر سکتا ہے، اور جو کبھی اپنے حق یا ضرورت سے زیادہ کی خواہش نہیں کرتا۔ اگر وہ کچھ چاہتا ہے تو یہ کہ وہ اپنی بیوہ ماں کو آرام دہ اور خوشی سے بھرپور زندگی دے سکے، اور مزید یہ کہ وہ اپنی تِکّے کی دکان کھول سکے۔
طیفا (علی ظفر) بٹ صاحب (محمود اسلم) کے سارے ’اوکھے‘ کام کرتا ہے۔ جیسا کہ کسی کو پیٹنا ہو یا کسی ایسے سے پیسے وصول کرنے ہوں جو دینے سے انکاری ہو۔ بٹ صاحب کے ایک پرانے دوست ہیں بشیر (جاوید شیخ) جو اب پولینڈ میں مقیم ہیں، نہایت ہی امیر ہیں اور وہاں بونزو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بٹ صاحب اپنے نالائق بیٹے بِلّوُ (مرحوم احمد بلال) کی شادی بونزو کی بیٹی آنیہ (مایا علی) سے طے کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جب بونزو اُن کی خواہش کو رد کردیتا ہے تو بٹ صاحب طیش میں آ کر اپنے وفادار طیفے کو پولینڈ روانہ کر دیتے ہیں کہ جا کر آنیہ کو اُٹھا لائے۔
باقی کہانی اس کے گِرد گھومتی ہے کہ طیفا آنیہ کو پولینڈ سے پاکستان لانے کے لیے کیا چالیں چلتا ہے، اُن کی درمیان کیا رشتہ بنتا ہے اور آنیہ کے پاکستان آنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہTeefa in Trouble
جیسے میں نے کہا ہے، کہانی زیادہ گہری نہیں ہے۔ لیکن یہ تو اس طرح کی ہلکی پھُلکی فلم سے توقع کی جا سکتی ہے۔ جو بات اس فلم کو بہتر بناتی ہے وہ یہ کہ اس کا سکرین پلے بہت چُست ہے، اس میں وہ جھول نہیں ہیں جو عام طور پر پاکستانی فلموں میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلم کو غیر ضروری طور پر کھینچا جا رہا ہے۔ واحد جگہ جہاں مجھے تھوڑا بہت محسوس ہوا کہ فلم ذرا لمبی ہو رہی ہے وہ بالکل آخر میں جا کر ہوا، لیکن وہاں بھی جو ایک بڑا کلائمیکس ڈالا گیا وہ اِس قسم کی فلم کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ فلم کی کہانی اور سکرین پلے مربوط ہیں۔
سکرپٹ کی دوسری بڑی بات یہ ہے کہ اس فلم کے کردار بہت خوبی سے لکھے گئے ہیں اور اُن کو اپنے آپ کو اِسٹیبلِش کرنے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ اسی لیے آپ ہر کردار کو نہ صرف سمجھ سکتے ہیں بلکہ اُن کے احساسات سے ہمدردی بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ کسی بھی ڈرامے کا اہم جُزو ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بٹ صاحب اور بونزو کے کرداروں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ لیکن طیفا اور آنیہ کے کردار بھی بہت دلچسپ ہیں۔
’طیفا اِن ٹربل‘ کی تیسری بڑی بات یہ ہے کہ اس کی پروڈکشن ویلیوز نہایت ہی عمدہ ہیں۔ زین حلیم کی عکاسی اور احسن رحیم اور طہٰ علی کی تدوین سے لے کر اس کا ایکشن اور ساؤنڈ ڈیزائن سب ہی اعلیٰ ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ آپ سچ مُچ بڑے سکرین کی فلم دیکھ رہے ہیں۔ اس کا سہرا فلم کے ہدایتکار احسن رحیم کے سر جاتا ہے، جو چھوٹی چھوٹی باتوں کا خوب خیال رکھتے ہیں۔
احسن رحیم جیسے ہدایتکار، جو اشتہاروں اور میوزک وڈیوز کی دنیا سے آتے ہیں، عموماً تیس سیکنڈ یا ایک منٹ کا ٹریلر تو اچھے کاٹ لیتے ہیں لیکن انھیں فلم کے طویل دورانیے میں کہانی کی گرفت قائم رکھنا مشکل لگتا ہے۔ لیکن احسن کی بطور ہدایتکار خاصیت یہ ہے کہ وہ ایکشن اور ایفیکٹس کی چکا چوند کے باوجود، کبھی اُن کو کرداروں اور کہانی پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔
ایکشن کے حوالے سے پہلا سین، جس میں طیفے سے ہمیں متعارف کرایا جاتا ہے، اور بعد میں پولینڈ میں فلمایا ہوا ایک کار چیز سین اور لاہور میں ٹرین کی بوگی کے اندر پیش آنے والا فائٹ سین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن مزاح کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے بہت سے ایسے ویژوئلز اور ڈائلاگ ہیں جن کو مزاح نگاری میں ’تھرو اوے لائنز‘ کہا جا سکتا ہے، وہ فلم بینوں کو محظوظ رکھتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہTeefa In Trouble
باقاعدہ سینز میں ایک سین بٹ صاحب اور بونزو کے درمیان سکائپ پر ایک گفتگو ہے جس کی کامیڈک ٹائمنگ تقریباً بےداغ ہے اور ایک سین جہاں طیفا کے اندر کی کشمکش کو ایک ’ویسٹرن‘ فلم کے گن فائٹ سین کا روپ دیا گیا ہے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اداکاری کے اگر بات کریں تو ظاہر ہے یہ فلم علی ظفر کو محور بنا کر بنائی گئی ہے اور وہ اپنے کردار پر پورا اُترتے ہیں، بشمول بطور ایکشن ہیرو اور بطور رومانوی لیڈ کے۔ لیکن اصل مزہ محمود اسلم اور جاوید شیخ ہی لیتے ہیں۔ خاص طور پر محمود اسلم جب بھی سکرین پر آتے ہیں، آپ پہلے ہی سے ہنسنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ فیصل قریشی، جو طیفا کے پولینڈ میں دوست ٹونی (ڈاٹ) شاہ کا کردار ادا کرتے ہیں، اپنے مخصوص انداز میں جملے بازی اور فیزیکل کامیڈی کرتے ہیں جو کبھی چلتی ہے اور کبھی نہیں بھی۔
مایا علی کی یہ پہلی فلم ہے، حالانکہ وہ ٹی وی ڈراموں میں کافی کام کر چُکی ہیں۔ جہاں وہ اکثر اوقات اپنا رول بخوبی نبھا لیتی ہیں، لیکن انھیں ابھی تھوڑی اور خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ مجھے وقتاً فوقتاً یہ محسوس ہوا کہ اُن کے پُرجوش کردار میں جو کشِش ہونی چاہیے تھی، اُس کی کچھ کمی تھی۔
بہرکیف، فلم کی موسیقی بھی گُنگُنانے کے لائق ہے اور خاص طور پر دو گانے، ’سجنا دور‘ اور ’چن وے‘، نہ صرف موسیقی کے حوالے سے یاد رہ جانے والے ہیں بلکہ اُن کو فلمایا بھی بہت عمدہ طریقے سے گیا ہے۔ "عشق نچوندا" اور "آئٹم نمبر" بھی اپنے طرز کے گانوں میں اچھے ہیں۔
’طیفا اِن ٹربل‘ کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب تک کی پاکستان میں بننے والی ’کمرشل‘ فلموں میں سب سے منفرد اور تکنیکی طور پر سب سے بہتر فلم ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ کسی بھی بالی وُڈ کی فلم سے کم نہیں ہے اور اس سے آئندہ پاکستانی فلموں کے لیے کئی دروازے کھُلیں گے۔
یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس سے پاکستانی کمرشل سنیما کا بھی ایک نیا باب کھُلے گا۔