صنف آہن: ’پہلی بار گن چلائی تو دل دھک دھک کر رہا تھا‘
صنف آہن وہ ڈرامہ سیریل ہے جو نشر ہونے سے پہلے ہی خواتین میں موضوع بحث بن چکا تھا۔
کیوں نہ ہوتا آخر اس ڈرامے کی کہانی خواتین کے گرد گھومتی ہے اور خواتین بھی ایسی جنھیں بارہا یہ جتایا جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں لیکن وہ ایسے تمام لوگوں کو غلط ثابت کر دیتی ہیں جو انھیں قابل نہیں سمجھتے۔
ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سات خواتین اس کہانی میں پاکستانی فوج کے مختلف شعبوں میں جاتی ہیں۔
ان ہی میں سے تین اداکاراؤں دنانیر مبین، رمشا خان اور سائرہ یوسف نے بی بی سی کے لیے صحافی براق شبیر کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے ان کرداروں کے لیے حامی بھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگایا۔
’میں بےوقوف ہوتی اگر انکار کر دیتی‘
صنف آہن نامی ڈرامہ پاکستان کے شعبہ تعلقات عام آئی ایس پی آر کے تعاون سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پاکستانی فوج کا حصہ بنتی ہیں۔
ان میں ایک کردار پری وش نامی لڑکی کا ہے جو بلوچستان کے ایک کسان کی بیٹی ہے۔
یہ کردار ادا کرنے والی اداکارہ رمشا خان کا کہنا ہے کہ 'میں نے اس کردار کے لیے تو یہ سن کر ہی ہاں کر دی تھی پری وش کو نشانے بازی کا شوق ہے۔ اور جب مجھے پتا چلا کہ سجل، سائرہ، کبریٰ، یمنیٰ، دنانیر سب اس کا حصہ ہیں تو میں بے وقوف ہوتی اگر انکار کر دیتی۔‘
ان کا کہنا تھا ’مجھے نشانہ بازی کا شوق نہیں اور جب میں نے پہلی بار گن چلائی ڈرامے تو میرا دل اتنے زور سے دھک دھک کر رہا تھا لیکن پھر بعد میں مزہ آنے لگا۔‘
ڈرامے کی دوسری اداکارہ سائرہ کا کہنا ہے کہ ’مجھے جب ثنا شاہنواز کی کال آئی اور انھوں نے مجھے تفصیل بتائی کہ یہ کہانی ہے، یہ بیانیہ ہے اور اتنے کردار ہیں تو اسی وقتی دلچسپی پیدا ہو گئی اور میں نے طے کر لیا کہ یہ تو مجھے کرنا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیو ’یہ میں ہوں ، یہ ہماری کار ہے اور ہم پارٹی کر رہے ہیں‘ سے شہرت پانے والی اور ’پاری گرل‘ کہلانے والی سوشل میڈیا انفلوینسر دنانیر بھی اس ڈرامے کی کاسٹ میں شامل ہیں۔ وہ ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ ایک لطیف کردار میں نظر آئیں گی۔
ان کا کہنا تھا ’جس وقت مجھے کال آئی اس وقت تک میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں اداکاری کروں گی، ڈرامہ، فلم یا کچھ ایسا، میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ جب مجھے کال آئی تو کیونکہ یہ پراجیکٹ بھی آئی ایس پی آر کا ہے، ابّا بھی آرمی میں ہیں تو یہ اتفاق ہو گیا۔‘
دنانیر کا کہنا تھا 'پھر جب میں نے سکرپٹ پڑھا تو مجھے سدرہ کے کردار سے پیار ہو گیا۔ اتنا پیارا لکھا ہوا تھا یہ کردار یہ میری اپنی شخصیت سے ملتا جلتا بھی ہے۔ مزاح کا جُزو، مزاحیہ تھا۔ میری اپنے خاندان کے ساتھ اس پر پانچ چھ مرتبہ بات چیت ہوئی کہ کریں یا نہ کریں۔ لیکن آپ ایک ایسے منصوبے کو کیسے نہ کہہ سکتے ہیں۔ جہاں میں نے سوچا تھا کہ میڈیا میں ایسا کچھ نہیں کروں گی وہیں مجھے اس کے لیے ہاں کہنا پڑا۔‘
’سات لڑکیاں ایک ساتھ ۔۔۔ اوہو‘
ایک ڈرامے میں اتنی ساری خواتین ایک ساتھ کام کر رہی تھیں تو کیا ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے کبھی کوئی مسائل تو نہیں ہوئے؟
اس سوال کے جواب پر رمشا خان کا کہنا تھا ’لوگوں نے اور میرے دوستوں نے کہا تھا کہ سات لڑکیاں ایک ساتھ اوہو۔۔۔ جیسا ایک تاثر ہوتا ہے، لیکن بہت مزہ آیا ہم سب لوگ ایک ساتھ تھے، ہم سب کی اچھی دوستی ہو گئی، ہنسی مزاق ہوتا رہا اور مدد بھی بہت کی سینز میں۔‘
اس حوالے سے سائرہ یوسف کا کہنا تھا کہ 'اگر دماغ میں چیلنج بنا دیں کہ ’اتنے سارے اداکار ایک ساتھ‘ تو تب یہ آپ کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ لیکن میں اسے مختلف زاویے سے دیکتھی ہوں کہ ناظرین ایسے دیکھتے ہیں کہ ایک منصوبے میں جہاں ان کے پسندیدہ اداکار ایک ساتھ ہیں اور وہ بھی ایک دو نہیں چار پانچ تو اسے دیکھنے میں مزہ آتا ہے۔‘
’اور اس ڈرامے میں بھی جتنے کردار ہیں یہ سب صف اول کے اداکاروں نے کیے ہیں اور یہ دیکھنے میں بہت مزہ آتا ہے اپنے پسندیدہ اداکاروں کو مختلف کرداروں میں دیکھ کر۔‘
اقلیتوں کی نمائندگی اور کرداروں کی شخصیت بھی متاثر کن
سائرہ یوسف اس ڈرامے میں غریب گھرانے کی ایک مسیحی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے مالک مکان کے سرکاری ملازم بیٹے سے شادی کرنا چاہتی ہیں تاکہ نہ صرف ان کے بلکہ ان کے خاندان کے مالی حالات بھی بہتر ہو سکیں۔
اپنے کردار کی زندگی کے المیے کا ذکر کرتے ہوئے سائرہ کا کہنا تھا 'بدقسمتی یہ اس کردار کے حالات کافی حقیقی ہیں اور آپ یہ سمجھ سکتے ہیں، لوگ کسی نہ کسی مقام پر کسی تکلیف دہ تعلق میں بندھے ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کو اس سب سے باہر نکلنا ہوتا ہے یا کم از کم ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
'میرے لیے آرزو بحثیت کردار بہت اہم تھا کیونکہ آرزو اقلیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کے تو الگ ہی مسائل ہیں کہ لڑکا ان کی برداری سے ہو، ان کے امکانات تو اور بھی کم ہو جاتے ہیں۔ آرزو کی مشکل یہی رہی کہ اگر میں اپنے خاندان کے لیے یہ کر بھی لیتی ہے تو اس سے اسے خوشی نہیں ملے گی۔ اور میرا خیال ہے یہ بات بہت سارے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔‘
رمشا خان کا اپنے کردار کے بارے میں کہنا تھا 'پری وش کا سفر میرے لیے بہت متاثر کن تھا، وہ لوگ اپنی زمین چُھڑانے کے لیے پائی پائی جمع کرتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں آنا بہت ضروری ہے، بہت سے لوگوں کو شاید یہ نہیں پتا کہ آپ جب کیڈٹ کے طور پر فوج میں شامل ہوتے ہیں تو اس وقت بھی کچھ پیسے مل رہے ہوتے ہیں ، اس لیے وہ ضروری تھا اس کے والد کا خواب تھا کہ میری بیٹی فوج میں جائے۔‘
رمشا خان کا کہنا تھا کہ 'جنھوں نے میرے والد کا کردار ادا کیا وہ ایک بہت اچھے اداکار ہیں۔ ہمارا لگ بھگ ایسا ہی تعلق بن گیا تھا۔ پری وش کا کردار شروع سے آخر تک میرے لیے بہت متاثر کن رہا۔‘
یہ بھی پڑھیے
’ڈیبیو پراجیکٹ اور اتنے بڑے اداکاروں کے ساتھ‘
سوشل میڈیا انفلواینسر دنانیر مبین کا یہ ڈیبیو پراجیکٹ ہے اس اسی میں انھیں اتنے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا۔
اس پر دنانیر کا کہنا تھا 'یہ غیر حقیقی ہے، میں جب اِن سے یا یمنی یا سجل سے بات کر رہی ہوتی ہوں تو سوچتی تھی کہ یہ سب میری پسندیدہ تھیں، ساری کاسٹ انفرادی طور پر بھی میرے لیے ایک انسپریشن ہے اور پہلا ہی پراجیکٹ ان لوگوں کے ساتھ کرنا میرے لیے اعزاز سے کم نہیں۔'
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بھی تنقید کی گئی کہ دنانیر کو اتنا بڑا پراجیکٹ کس بنا پر مل گیا۔
اس بارے میں دنانیر کا کہنا تھا 'میرا پہلا پراجیکٹ اللہ نے لکھا تھا ان لوگوں کے ساتھ اور وسیلہ بنا دیا ایک ویڈیو کو۔ ہر کسی کا اپنا نظریہ ہے۔'
اس موقعے پر مشعل کا کہنا تھا 'اگلی قسط آنے دیں، جب لوگ ان کا کام دیکھیں گے تو تب نہیں کہیں گے۔'
سائرہ یوسف نے بھی ان کی تائید کی اور کہا 'میں نے بھی کچھ چیزیں دیکھیں لیکن سوچا بس اس وقت تک انتظار کریں جب یہ آئیں گی، انتظار کریں ان کا حصہ آنے تک۔‘
دنانیر کا کہنا تھا 'میرا موقف ہے کہ نفرت کرنے والوں کو اپنے کام سے محبت کرنے والوں میں بدلنا چاہیے۔‘
ساتھی اداکاروں کی مدد
پرش وش کے کردار کی تیاری کے حوالے سے رمشا خان کا کہنا تھا کہ 'جب میں لک ٹیسٹ کے لیے آئی تو مجھے بتایا گیا مجھے مخصوص لہجہ اختیار کرنا ہوگا تو میں ڈر گئی اور پوچھا کیا لہجہ ضروری ہے؟ انھوں نے کہا جی ضروری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'خوش قسمتی سے میرے امی ابو کا کردار کرنے والے کوئٹہ ہی کے اداکار ہیں ان سے پھر میں نے بات کی اور مشق کی۔‘
’پہلے دن لہجہ لڑکھڑا رہا تھا پھر جو میری امی بنی ہیں انھوں نے کہا کہ اتنا گھمبیر لہجہ بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ پری وش بچپن سے ہی سکول گئی اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی۔ میرے امی ابو نے میری کافی مدد کی۔ میں عکس بندی کے وقفے کے دوران ان کے ساتھ ہی بیٹھتی تھی ان کے ساتھ ہی باتیں کرتی تھی پھر میں نے ان سے سیکھا۔‘
سلیوٹ سب سے مشکل کام
ساتوں اداکاراؤں نے ڈرامے کے دوران فوجی تربیت بھی حاصل کی اور اس دوران نشانہ بازی سمیت جسمانی اور ذہنی تربیت میں حصہ لیا۔
تینوں اداکاراؤں کا کہنا تھا اگرچہ فوجی تربیت سب ہی کے لیے ایسا کام تھا جو پہلے کسی نے نہیں کیا تھا تاہم سب نے اسے سکھ لیا۔
مشعل خان جنھیں ذرامے کے ابتدا میں ہی بندوق چلاتے دکھایا گیا وہ بندوق چلانا تو سیکھ گئی لیکن ان کے بقول رکاوٹیں پھلانگنا ان کے لیے مشکل ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اسی دوران علم ہوا کہ وہ اونچائی سے ڈرتی ہیں۔
ڈرامے کی عکس بندی کے دوران اصلی فوجیوں سے تربیت حاصل کرنے اور ڈانٹ پڑنے کو یاد کرتے ہوئے تینوں فنکاروں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام سلیوٹ ٹیسٹ پاس کرنا تھا۔
مشعل خان نے بتایا کہ بار بار ناکام ہونے کے بعد بالآحر سب سے ٹیسٹ پاس کر لیا اور پاس ہونے کے بعد دنانیر اور ایک ساتھی فنکارہ جو دونوں ہی عمر میں سب سے کم تھیں دونوں پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔
سائرہ یوسف کا کہنا تھا ’اصل خوف ٹیسٹ لینے والے افسران کا ہوتا ہے۔ جب ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سلیوٹ کرنا پڑتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔‘