پاکستانی فوج کی جنگی مشقیں

پاکستانی تاریخ کی دوسری بڑی جنگی مشقوں عزمِ نو سوئم میں پاکستانی فوج کے بیس ہزار سے زائد اہلکار شریک ہیں اور ان جنگی مشقوں میں بری افواج کے علاوہ فضائیہ کے جوان بھی حصہ لے رہے ہیں۔
دس اپریل سے شروع ہونے والی یہ مشقیں تیرہ مئی تک جاری رہیں گی۔ ان جنگی مشقوں میں ایف سولہ، میراج طیاروں، جے ایف سیون تھنڈر طیاروں کے علاوہ الخالد ٹینک اور کوبرا ہیلی کاپڑ بھی حصہ لے رہے ہیں۔
فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ان جنگی مشقوں کا مقصد پاکستانی افواج کی روایتی جنگی قابلیت کو جانچنا ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگی مشقیں بھارت کی طرف سے بڑھتی ہوئی جنگی تیاریوں اور پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر منڈلاتے ہوئے خطرات کے مدنظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی فوج کے ایک سابق جرنیل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ کمال متین الدین کا کہنا ہے کہ یہ جنگی تیاریاں شدت پسندوں کے خلاف جاری جنگ میں پاکستانی افواج کی کارکردگی کو مزید موثر بنانے کے زُمرے میں نہیں کی جارہیں بلکہ یہ بھارت کے لیے واضح پیغام ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کی گئی تو اس کی افواج اپنے ملک کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں سے کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں۔
کمال متین الدین کا کہنا تھا کہ پاکستانی افواج قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کرہی ہیں لیکن وہاں پر ایسی جنگی مشقوں کی ضرورت نہیں ہے جو اس وقت جاری ہیں۔
پاکستان کی اقتصادی صورت حال تسلی بخش نہ ہونے کے باوجود ایسی جنگی مشقیں جن پر کروڑوں روپے لاگت آتی ہے، ریٹائرڈ فوجی جرنیل کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ایسی فوجی مشقیں ہر دوتین سال کے بعد ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی افواج کی پیشہ وارانہ صلاحتیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان مشقوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اکیس سال پہلے ہونے والی فوجی مشقیں اور عزم نو تھری کے نام سے جاری ان جنگی مشقوں میں پاکستانی افواج کی قابلیت میں بہت ذیادہ اضافہ ہوا ہے۔
وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری بریگیڈئیر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ ان جنگی مشقوں کا مقصد عالمی برادری کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ اگرچہ پاکستانی افواج عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے شدت پسندوں کے خلاف جنگ کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کا اب بھی نمبر ون دشمن بھارت ہی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چاہے بھارت بارہا کہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کو امن کے دنوں میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ محمود شاہ کا کہنا تھا کہ بھارت روائیتی اور غیرو روائیتی ہر قسم کے ہتھیار اکھٹے کررہا ہے اور ایسی صورت حال میں پاکستان اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے کہ ان جنگی مشقوں کا مقصد کسی ملک کے خلاف کوئی جنگی عزائم رکھنا نہیں ہے بلکہ ان جنگی مشقوں کا مقصد پاکستانی افواج کی جنگی صلاحتیوں کو جانچنا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سنہ دوہزار دس کو پاکستانی افواج کے سپاہیوں کے لیے تربیت کا سال قرار دیا تھا۔
میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ ان جنگی مشقوں پر کوئی اضافی خرچہ نہیں کیا جارہا بلکہ اس کے لیے جو رقم مختص کی گئی تھی اُسی میں رہ کر یہ مشقیں جاری ہیں۔ تاہم پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے ان جنگی مشقوں کے لیے مختص کی گئی رقم کے بارے میں نہیں بتایا۔
یاد رہے کہ آزادی کے بعد پاکستانی افوج کی دوسری بڑی جنگی مشقیں عزم نو تھری کے نام سے جاری ہیں اس سے پہلے اکیس سال پہلے ضرب مومن کے نام سے جنگی مشقیں اسی علاقے میں میں ہوئیں تھیں۔
عزمِ نو تھری کے نام سے جاری یہ جنگی مشقیں جوبی کمانڈ کی سربراہی میں ہو رہی ہیں لیفٹیننٹ جنرل خالد شمیم وائیں مجموعی طور پر ان جنگی مشقوں کی نگرانی کررہے ہیں جبکہ کور کمانڈر ملتان بھی ان مشقوں میں حصہ لے رہیں ہیں۔
پاکستانی افواج کی طرف سے جاری ان جنگی مشقوں کو دیکھنے کے لیے امریکہ، چین اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران بھی خیرپور ٹامے والی کا دورہ کر رہے ہیں۔
یہ جنگی مشقیں دیکھنے کے لیے سابق فوجی جرنیلوں کو بھی مدعو کیا گاا تھا ان میں وہ سابق فوجی جرنیل بھی شامل تھے جنہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کا تخت اُلٹنے کے لیے سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا ۔ ان میں سابق جوائینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ محمدعزیز کے علاوہ سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل یوسف بھی نمایاں تھے۔