دیہی انڈیا میں ہم جنس پرست ہونے کا مطلب کیا ہے؟

  • وِکاس پانڈے
  • بی بی سی نیوز، دلی
ہم جنس پرستی

انڈیا میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔

ملک کے مختلف شہروں میں سرگرم ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایل جی بی ٹی گروپس اس فیصلے کو ’ایک نئے دور کا آغاز‘ قرار دے کر جشن منا رہے ہیں۔

تاہم انڈیا کے دیہی علاقوں میں ہم جنس پرستوں اور ایل جی بی ٹی برادری میں شامل دیگر افراد کے لیے زمینی حقیقت خاصی مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے دیہی معاشرے میں موجود منفی اور قدامت پسند رویوں کو بدلنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔

یہ دیہی انڈیا کے تین ایسے ہی ہم جنس پرستوں کی کہانیاں ہیں۔

ارُن کُمار، عمر 28 برس، اتر پردیش

میں عدالت کے اس فیصلے سے بہت خوش ہوں۔ شہر میں رہنے والے اب قانون کے خوف کے بغیر اپنے جذبات اور چاہتوں کا اظہار کر پائیں گے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مجھ جیسے گاؤں میں رہنے والوں کے لیے ایسا نہیں ہے۔

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ہمیں قانون کا ڈر نہیں۔ ہماری پریشانی کا سبب لوگوں کے رویے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس فیصلے کی میڈیا کووریج کی مدد سے لوگ یہ سمجھنے لگیں گے کہ ہم جنس پرستی بھی ’نارمل‘ یا ٹھیک ہے۔

لیکن بےخوف زندگی گزارنے کے لیے ایل جی بی ٹی افراد کے سامنے ابھی کئی محاذ ہیں جن پر انہیں لڑنا ہوگا۔ میں نے اپنی ساری زندگی خوف میں گزاری ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ مستقبلِ قریب میں بدلنے والا ہے۔

میں چودہ برس کا تھا جب مجھے احساس ہوا کہ مجھے لڑکیاں نہیں لڑکے اچھے لگتے ہیں۔ پہلے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ کوشش کی کہ اس بارے میں سوچوں ہی نہیں۔ مگر یہ احساس مجھے پریشان کرتا رہا، تو میں نے ایک دوست سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے ردعمل نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے کہا کہ ہم جنس پرستی کے بارے میں سوچنا تک گھناؤنا تھا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے دور دور رہنے لگا اور ہمارے درمیان بات چیت تقریباً ختم ہو گئی۔ اس کے بعد کئی سال تک میں نے اپنے جنسی رجحانات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔

جب میں بہت افسردہ ہو جاتا تھا تو کھیتوں میں جا کر پیڑ پودوں سے بات کرتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کوئی منفی رائے قائم نہیں کرتے، جیسے وہ میرے دوست ہوں۔ میں اب بھی ان سے بات کرتا ہوں۔ اٹھارہ برس کی عمر میں، میں پڑھائی کے سلسلے میں پاس ہی ایک شہر میں رہنے لگا۔ لیکن وہاں بھی کچھ نہیں بدلا۔ میں بہت زیادہ اداس رہنے لگا، ایسا لگتا تھا کہ یہ دنیا بےمعنی ہے۔

ایک احساسِ جرم تھا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتا تھا اور میں اس کی وجہ سمجھ نہیں پاتا تھا۔ میں کچھ غلط نہیں کر رہا تھا۔ آخرکار میں نے اپنے ایک ٹیچر سے، جن کا رویہ مجھے بہتر لگتا تھا، بات کرنے کے لیے ہمت باندھی۔ لیکن وہ بھی ایک بھول تھی۔

ٹیچر نے میرے والدین کو فون کیا، اور وہ مجھے واپس گھر لے گئے۔ میرے والد بہت غصہ ہوئے۔ ان کے خیال میں یہ ایک بیماری تھی جس کا علاج کیا جا سکتا تھا۔ وہ مجھے کئی پیروں، فقیروں، سادھوؤں کے پاس لے کر گئے، جنہوں نے نہ جانے کیا کیا علاج بتائے۔۔ ایک نے کہا کہ مجھے ایک ہفتے کے لیے اپنے کمرے میں بند کیا جانا چاہیے۔ اور میرے والد نے یہی کیا۔

میں اب بھی گاؤں میں رہتا ہوں۔ مگر مجھے حال ہی میں ایک بڑے شہر میں نوکری ملی ہے۔ میں پرامید ہوں کہ میرے حالات بدلیں گے۔ میں ایک ہمسفر چاہتا ہوں۔ پیار کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے پیار کرے۔

کرن یادو، عمر 30 برس، بہار

میں تو سیکشن 377 کے بارے میں جمعرات تک جانتی تک نہیں تھی۔ میں یہ تک نہیں جانتی تھی کہ ہم جنس پرست ہونا جرم تھا۔ میں بس یہ جانتی تھی کہ بہار کے جس دیہات میں میں رہتی ہوں وہاں مجھے کبھی بھی ایک ہم جنس پرست عورت کی طرح رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

میں اس فیصلے سے خوش تو ہوں، لیکن اس کا مجھے کوئی فائدہ نہیں۔ میں بس یہ امید کر سکتی ہوں کہ اس سے ایک لہر شروع ہوگی جو دیہی انّیا تک بھی پہنچے گی۔

میں 15 برس کی تھی جب مجھے احساس ہوا کہ میں ہم جنس پرست ہوں۔ بچپن سے ہی مجھے کبھی لڑکیوں والے کپڑے پسند نہیں تھے۔ مجھے گاؤں کے لڑکوں کی طرح پینٹ شرٹ پہننا اچھا لگتا تھا۔

میرے والدین نے مجھے نہیں روکا۔ میرا کوئی بھائی نہیں، تو وہ مجھے ہی اپنا بیٹا سمجھتے تھے اور میرے کپڑوں سے انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔

لیکن وہ میرے جنسی رجحانات سے ناواقف تھے۔ اور سچ بات تو یہ ہے کہ میں خود بھی زیادہ نہیں جانتی تھی۔ میں یہ جانتی تھی کہ مجھے لڑکیاں اچھی لگتی تھیں۔ لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ یہ غلط ہے۔ اس وجہ سے میں نے کبھی اس بارے میں اپنے والدین کو نہیں بتایا۔ وہ اب بھی نہیں جانتے۔ میرے قریبی دوست، جاننے والے، کوئی نہیں جانتا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں مجھے اکثر خواتین اچھی لگتی ہیں لیکن کبھی کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں کر پاتی۔

جب میں 20 سال کی تھی تو لگتا تھا کہ کسی طرح اپنے جذبات کا اظہار کروں۔ گاؤں میں تو کسی سے بات کر نہیں سکتی تھی۔ تب موبائل فون نے میرا مدد کی۔ میں کوئی نمبر ملا کر انجام لوگوں کو اپنی کہانا سناتی۔ جب ایک لڑکی نے مجھ سے کہا کہ اسے میری آواز اچھی لگی، تو میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ پہلی بار کسی لڑکی نے میری تعریف کی تھی۔

لیکن خوشی کے یہ لمحے بہت کم اور چھوٹے تھے۔ میں دراصل بہت ناخوش تھی۔

24 برس کی عمر میں میں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ میرے والدین کو لگا کہ میری پریشانی کی وجہ میری شادی نہ ہونا تھی۔ کچھ ہی ہفتوں میں انہوں نے میری شادی کروا دی، لیکن وہ رشتہ کیسے چل سکتا تھا۔ ایک سال کے اندر اندر میری طلاق ہوگیا۔

زندہ رہنے کی چاہ ہی ختم ہو گئی تھی۔ ہر دن مشکل تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے 30 سال کسی ہمسفر کے بغیر ہی گزارے ہیں۔ اب تو میں بس یہ چاہتی ہوں کہ مجھے نوکری مل جائے۔ مجھے ایسی کوئی امید نہیں کہ مجھے کبھی کوئی ہمسفر ملے گی، کیوںکہ میں کبھی ہم جنس پرست ہونے کے بارے میں کھل کر بات نہیں کر سکتی۔

راہُل سنگھ، عمر 32 برس، بہار

میں اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ لیکن میری زندگی میں سکشن 377 کبھی مسئلہ نہیں تھا۔ میرے گاؤں میں پولیس نے اس کی وجہ سے کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا۔ ہمیں اگر کوئی پریشان کرتا ہے تو وہ ہمارا معاشرہ ہے۔

16 سال کی عمر میں مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں ہم جنس پرست ہوں۔ دو سال بعد میری شادی ہو گئی۔ میں اپنے والدین یا اپنی بیوی کو بالکل نہیں بتا سکتا تھا اس لیے میں ایسے زندگی گزارنے لگا جیسے کہ سب ٹھیک ہے۔ اب میرے دو بیٹے ہیں۔

لیکن مجھے اس بات کا شدید افسوس ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو نہیں بتایا۔ وہ اب جانتی ہے، لیکن بچوں کی وجہ سے اب بھی میرے ساتھ ہی رہتی ہے۔

گاؤں میں ساتھی ملنا بہت مشکل ہے۔ بڑھ شہروں کے برعکس یہاں کوئی گے کلب وغیرہ نہیں۔ میں کچھ ہم جنس پرست افراد کو جانتا ہوں، لیکن وہ معاشرے کے خوف سے اس بات کا اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک ہم جنس پرست کہ کوئی عزت نہیں، اور نہ ہی اسے محبت کرنے کا حق ہے۔

زندگی کافی مشکل ہے۔ میں لوگوں کی کتنی ہی مدد کروں، کتنا ہی اچھا سلوک کروں، جیسے ہی انہیں میرے ہم جنس پرست ہونے کے بارے میں پتہ چلتا ہے، وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو ہم سے ہمدردی ہے، مگر وہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بیماری ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے۔ کوئی ہمیں سمجھتا نہیں۔

اس طرح جینے سے آپ اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ پریشان رہتا ہوں کہ ابھی کوئی پیچھے سے آئے گا اور مجھے مارے گا، یا برا سلوک کرے گا، صرف اس لیے کہ میں ہم جنس پرست ہوں۔

دیہی انڈیا میں ہم جنس پرست ہونا بہت مشکل ہے، دم گھٹتا ہے۔

مجھے یہ ڈر بھی ہے کہ میرے بچے بڑے ہوں گے تو لوگ انہیں تنگ کریں گے۔ اس خوف کی وجہ سے میں پہلے ہی ایک بار نئی رہنے آ چکا ہوں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ بس بہت ہو گیا۔ لیکن پھر اپنے بچوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔

ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ کاش میں نے اپنے والدین کو سب بتا دیا ہوتا۔ کاش میں نے شادی نہیں کی ہوتی۔ کاش میری رسائی ایسے گروپس تک ہوتی جو میری مدد کر سکتے تھے۔

شناخت محفوظ رکھنے کے لیے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔ تصاویر، پنیت کُمار نے بنائی ہیں۔