بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان: مختلف سمتوں میں سفر، حقیقت یا نظر کا دھوکہ ہے؟

  • ثقلین امام
  • بی بی سی اردو سروس، لندن
بنگلہ دیش میں ملبوسات کی صنعت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں ملبوسات کی صنعت کا ایک اہم کردار رہا ہے

بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی سب سے جوان ریاست ہے، لیکن اِس کی فی کس مجموعی قومی پیداوار پاکستان سے کئی فیصد، اور اپنے سے کئی گنا بڑی ریاست، انڈیا سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی ایک سیکولر ریاست کے طور پر ایک تیزی سی ترقی کرتا ہوا ملک سمجھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس میں ایک سیاسی استحکام نظر آرہا ہے۔

سنہ 1971 میں ایک آزاد ریاست بننے سے پہلے بنگلہ دیش ایک اسلامی ریاست پاکستان کا حصہ تھا، جہاں اب اسلامائزیشن بیک وقت ریاست کی قومی یکجہتی کی تعمیر اور معاشرے کی فرقہ وارانہ تقسیم کا ایک بڑا سبب بن چکی ہے۔

تاہم دونوں ممالک جس ملک سے علحیدہ ہوئے تھے، یعنی انڈیا وہ ایک طویل عرصے تک سکیولرزم کے بعد 'ہندوتوا' کی جانب بڑھ رہا ہے، یعنی جہاں ایک انتہائی دائیں بازو کی سخت گیر حکومت اور معاشرہ فروغ پا رہا ہے۔

گلوبل اکانومی نامی درجہ بندیوں کی ایک ویب سائٹ کے مطابق غیر مساوی ترقی کے انڈیکس میں انڈیا کا نمبر 61 واں ہے جبکہ بنگلہ دیش کا نمبر 71واں بنتا ہے اور پاکستان کا نمبر 82واں بیان کیا گیا ہے۔ یہ انڈیکس معاشرے میں عدم مساوات ظاہر کرتا ہے۔

ورلڈ جسٹس فورم، ایک بین الاقوامی غیر سرکاری ادارہ، کے رُول آف لاء انڈیکس میں پاکستان کو 130ویں نمبر پر شمار کیا گیا ہے۔ جبکہ اسی انڈیکس میں بنگلہ دیش کی درجہ بندی 124 ہے۔ اور انڈیا کا نمبر 79 ہے۔ انڈیا کی ایک درجہ بندی کم ہوئی اور بنگلہ دیش کی درجہ بندی میں بہتری آئی جبکہ پاکستان کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

تینوں ممالک کی ترقی کے اشاریے

تینوں ممالک کی ترقی کے اشاریے

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ 1971 میں انڈیا کی قومی مجموعی پیداوار 67 ارب ڈالر تھی جب پچھلے برس یعنی سنہ 2020 میں 2622 ارب ڈالر تھی (یعنی7.7 فیصد سالانہ اوسط شرح نمو اور 49 برسوں میں 38 گنا اضافہ)۔ سنہ 2019 میں انڈیا کا جی ڈی پی 2871 ارب ڈالر تھا۔

سنہ 2020 میں انڈیا کی فی کس آمدن 1900 ڈالر تھی۔

دوسری جانب بنگلہ دیش کی سنہ 1971 میں قومی مجموعی پیداوار 8.7 ارب ڈالر تھی جو پچھلے برس سنہ 2020 تک 324 ارب ڈالر تھی (یعنی 7.71 فیصد سالانہ اوسط شرحِ نمو، جبکہ 49 برسوں میں 38.1 گنا اضافہ)۔

بنگلہ دیش کا جی ڈی پی سنہ 2019 میں 302 ارب ڈالر تھا۔ اور سنہ 2020 میں فی کس آمدن 1968 ڈالر تھی، یعنی انڈیا سے زیادہ۔

تاہم پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار سنہ 1971 میں 10.6 ارب ڈالر تھی جو کہ پچھلے برس تک 263 ارب ڈالر تھی یعنی سالانہ اوسط شرح نمو 6.68 فیصد تھی اور 49 برسوں میں 23 گنا اضافہ ہوا)۔ سنہ 2019 میں پاکستان کے جی ڈی پی کی مالیت 288 ارب ڈالر تھی جو کہ سنہ 2018 میں 314 ارب ڈالر تھی۔

پچھلے برس تک پاکستان میں فی کسی آمدن 1193 ڈالر تھی۔

سیاسی نظام اور استحکام

گلوبل اکانومی کی ویب سائٹ پر سیاسی استحکام کے لحاظ سے انڈیا کا نمبر 159 ہے، بنگلہ دیش کا 161 اور پاکستان کا 184 درجہ بنتا ہے۔ اس درجہ بندی میں نیوزی لینڈ اور سویٹزرلینڈ جیسے ممالک سرِ فہرست ہیں جبکہ یمن، افغانستان اور شام جیسے ممالک بالترتیب 192، 193 اور 194 نمبر پر آتے ہیں۔

کمزور ریاست کی درجہ بندی کے لحاظ سے انڈیا کا نمبر 63 ہے، بنگلہ دیش کا نمبر 37 اور پاکستان کا نمبر 27 ہے۔ اس درجہ بندی میں سرِ فہرست یمن، صومالیہ اور شام جیسے ممالک آتے ہیں جبکہ آخر میں آئس لینڈ، فن لینڈ اور ناروے آتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ سنہ 2008 سے اقتدار میں ہیں

اقوام متحدہ کے 193 ممالک کی ترقی کے ایک آزاد جائزے کے مطابق جو کہ سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2021 میں شائع ہوا، پاکستان کا نمبر 129 ہے، انڈیا کا نمبر 120 ہے اور بنگلہ دیش کا نمبر 109 ہے۔ اس رپورٹ میں فِن لینڈ، سویڈن اور ڈنمارک جیسے ترقی یافتہ ممالک سرِ فہرست ہیں جبکہ صومالیہ، چاڈ اور ساؤتھ سوڈان کے نام فہرست میں نیچے آتے ہیں۔

ریاست کی سلامتی کو خطرے (یعنی سکیورٹی کے خطرے) کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 27 واں ہے، بنگلہ دیش کا 37واں اور انڈیا کا 52 واں نمبر ہے۔ اس درجہ بندی میں سر فہرست افغانستان، لیبیا اور مالی ہیں جبکہ سب سے نیچے سنگاپور، پرتگال اور سلووینیا کے نام آتے ہیں۔

پائیدار استحکام کا موازنہ

تاریخ دان، علومِ سیاسیات اور سماجیات کے ماہرین کے سامنے یہی بڑا سوال ہے کہ تینوں ممالک کی تاریخ ایک جیسی ہے، یہ تینوں ایک ہی محکوم ریاست کے حصے تھے جس سے یہ آزاد ہوئے تھے۔

دی گلوبل اکانومی کے نام سے معروف ویب سائٹ کے 200 ممالک کے سیاسی استحکام کے انڈیکس کے مطابق، انڈیا کی رینکنگ 159 ہے، بنگلہ دیش کا نمبر 161 اور پاکستان 184 پر پے۔

پیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، لوگوں کی زندگی میں مذہب کی اہمیت کے لحاظ سے پاکستان میں 94 فیصد افراد کے لیے ان کا مذہب بہت اہم ہے۔ اس طرح پاکستان دنیا کے سب سے زیاد مذہبی ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 81 فیصد اور انڈیا میں 80 فیصد ہے۔

کیا نظام بدل چکے ہیں؟

جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت بنگلہ دیش نے اب تک کے حالات میں اقتصادی میدان میں سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم اس کی اپنی سیاسی عدم استحکام کی تاریخ ایک پاکستان سے علحیدگی کے باوجود فوجی مداخلت کے حوالے سے زیادہ مختلف نہیں رہی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روایتی طور پر چاول، گندم، مکئی، آلو پیدا کرنے والا ملک نئی فصلیں جیسے کہ شملہ مرچ، ڈیگن فروٹ، اور سٹرابیری بھی پیدا کرنے لگا ہے

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

انڈیا میں اگرچہ جمہوریت کو فروغ ملا لیکن اس کا اس کی معیشت اور غربت میں کمی پر کوئی خاطر خواہ مثبت اثر نظر نہیں آتا ہے۔

جنوبی ایشا کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف اور سابق امریکی سفارت کار اور سکالر کریگ بیکسٹر نے سنہ 1985 میں ایک مقالے میں لکھا تھا کہ 'اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ انڈیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اور یہ کہ پاکستان ایک ماڈل پریٹورین سٹیٹ (فوجی ریاست) ہے، اور بنگلہ دیش کی بین الاقوامی ساکھ ایک 'اقتصادی ٹوکری' کے طور پر ہے۔ یہ بات بھی اکثر کہی جاتی ہے کہ ان تینوں ممالک کو لبرل برطانوی روایات وراثت میں ملی ہیں۔ اور یہ کہ انھیں محکوم زمانے کے دور کے حکمرانی کا طاقتور مرکزی شاہی نظام اور اس کے ساتھ موجود سٹیل فریم (نوکر شاہی) کا ڈھانچہ ملا، تاہم ایک اہم نکتے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے: اوپر بیان کی گئی ان تمام باتوں میں کچھ نہ کچھ سچائی موجود ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی بات مکمل طور پر درست نہیں ہے اور کوئی بھی بات ان قومی ریاستوں کی مقامی ثقافتی روایات کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں پیش کرتی ہے۔‘

پاکستان کی معروف تاریخ دان اور امریکہ میں ٹفٹس یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر، ڈاکٹر عائشہ جلال اپنی ایک کتاب 'ڈیموکریسی اینڈ اتھاریٹیرینزم اِن ساؤتھ ایشیا' میں لکھتی ہیں کہ انڈیا کو ورثے میں نوآبادیتی دور کی مضبوط مرکزی حکومت اور ایک صنعتی ڈھانچہ ملا تھا جو اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اُن خطوں سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھا جو پاکستان کا حصہ بنے۔

اس تاریخی فرق کے باوجود انڈیا، پاکستان اور بعد میں بننے والے ملک بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ ترقی کی کچھ بہت زیادہ مختلف سمتیں متعین نہیں کر سکی۔

انڈیا کے معاشی امور پر لکھنے والے ایک معروف صحافی مناس چکرورتی یہی نکتہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اگرچہ اقوام متحدہ جنوبی ایشیا کے تینوں ممالک، یعنی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سبھی کو اب 'درمیانی انسانی ترقی' والے ممالک کی درجہ بندی میں شمار کرتا ہے اور ان کی معیشتیں اب زیادہ امیر ہیں، تاہم ان کے عوام اب بھی واضح اقتصادی اور سماجی عدم مساوات اور ناانصافیوں اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، اور بہت کم تحفظ کے ساتھ غیر معمولی ملازمتوں میں کام کر رہے ہیں۔'

تین ممالک، تین ماہرین

ان تینوں ممالک کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے تینوں ممالک سے تعلق رکھنے والے مگر آزاد تحقیق کرنے والے دانشوروں سے چند سوالات کیے تاکہ ان سے جنوبی ایشیا کے ان تین ممالک کی مختلف سمتوں میں سفر کے اسباب کو سمجھا جا سکے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

دائیں سے بائیں: پروفیسر علی ریاض، ڈاکٹر عائشہ جلال، آکار پٹیل

1: پاکستان کی ڈاکٹر عائشہ جلال جو اس وقت امریکہ کی ٹفٹس یونی ورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔

2: بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے پروفیسر علی ریاض جو امریکہ کی ایلینوئے سٹیٹ یونیورسٹی میں علوم سیاسیات کے پروفیسراور 'نان ریزیڈنٹ سینیئر فیلو' ہیں۔

3: انڈیا کے آکار پٹیل، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انڈیا کے سابق سربراہ اور انڈیا میں انتہا پسندی پر محقق اور 'پرائیس آف مودی ایئرز' کے مصنف ہیں۔

تینوں ممالک کی مشترکہ تاریخ

سوال 1: پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کا نہ صرف ایک جیسا محل وقوع ہے بلکہ تینوں ممالک کی نوآبادیتی کی تاریخ بھی ایک جیسی ہے۔ تو پھر سات دہائیوں کے بعد بھی ان مملکوں کی مجموعی طور پر ترقی کی سمتیں مختلف کیوں دکھائی دیتی ہیں؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: اس خطے میں آبادی اور پولیٹیکل اکانومی کے لحاظ سے پہلے سے بہت سارے فرق موجود تھے۔ انڈیا کی تقسیم کی وجہ سے ان اختلافات میں زیادہ فرق اُس وقت بڑا ہوگیا جب پاکستان نے سرد جنگ کے پس منظر میں اپنی معیشت کا انڈیا سے رابطہ منقطع کر کے عالمی معیشت سے تعلق جوڑ لیا۔

پاکستان کے مشرقی حصے کے بنگلہ دیش بننے کے بعد اس ملک نے جنرل ضیاالرحمٰن اور جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی آمریت بننے سے پہلے پارلیمانی جمہوریت کا تجربہ کیا جو کہ پاکستان کے سیاسی تجربے کے متوازی تھا۔

پروفیسر علی ریاض: کئی لحاظ سے ان ممالک کی سمتیں مختلف رہی ہیں جس کی وجہ ان میں اداروں کی مختلف ترتیب اور ان کا انتظام ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو کبھی بھی ایسے مضبوط ادارے نہ وراثت میں ملے اور انھوں نے بنانے کی کوشش کی جو ان کی درست سمت کا تعین کرتے اور انھیں آگے بڑھنے میں مدد دیتے۔

آکار پٹیل: میرے خیال میں ان تینوں ممالک کی پیش رفت کی سمتیں ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی میں فی کس آمدنی انڈیا سے بہتر ہو گئی ہے، لیکن تینوں ممالک کی متوسط درجے کی آمدن والے ممالک میں نچلی سطح کی حیثیت ہے۔

ان ممالک میں صنف کے لحاظ سے ترقی بھی ایک جیسی ہے۔ تاہم بنگلہ دیش میں ترقی کے عمل میں عورتوں کو دیگر ممالک سے بہتر شرکت کا موقعہ ملا ہے۔ سیاسی لحاظ سے بھی ان ممالک کی سمتوں میں پیش رفت ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں، یعنی عوامی مفادات کے خلاف اکثریتی گروہوں کی حکمرانی کی سیاست اور پالیسیاں۔

سنہ 1971 کے بعد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971 میں بطور بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا تھا

سوال 2: سنہ 1971 کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بنتے وقت اس کی اقتصادی حالت (مغربی) پاکستان کی اقتصادی حالت سے بہتر نہیں لگتی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ آج بنگلہ دیش کی معیشت پاکستان سے بہتر ہو گئی اور جی ڈی پی میں فی کس آمدن کے لحاظ سے اب یہ انڈیا سے بھی بہتر ہو گئی ہے؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: ایک معاملے میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی نسبت لینڈ ریفارمز زیادہ بہتر اور موثر تھیں، مغربی پاکستان میں بالادست سماجی طبقے اور ریاست کے غیر منتخب اداروں (ملٹری اور بیوروکریسی) کے درمیان تعلق نے اس بات کو یقینی بنا دیا کہ اول الالذکر کی اقتصادی مراعات اس کمپنی میں جونیئر پارٹنر کے طور پر برقرار رہیں جو اُس وقت پاکستان کو چلا رہی تھی۔

پروفیسر علی ریاض: جی ڈی پی کی شرح نمو کو اقتصادی ترقی کی پیمائش کے لیے ایک بہترین معیار نہیں سمجھنا چاہیے۔ ترقی کے معیار کو انسانی ترقی اور انسانی حقوق کے تحفظ کو شامل کر کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

تاہم بنگلہ دیش نے سماجی اشاریوں اور اور مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے کافی زیادہ پیش رفت کی جس کی وجہ ریاست، نجی شعبہ اور غیر سکاری تنظیموں کا سنہ 1991 کے بعد سے مل کر محنت کرنا ہے۔ بعض معاملات میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود، پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آئی۔

فوجی اور سویلین رہنماؤں کے درمیان طاقت کی کشمکش اور ان دونوں کے بین الاقوامی امداد دینے والے اداروں پر انحصار نے ان کے ملک کی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔

آکار پٹیل: بنگلہ دیش نے اپنی معیشت میں مینوفیکچرنگ کے حصے میں اضافہ کیا ہے۔ یہ ایک اہم بات ہے کیونکہ اس سیکٹر سے بہت سارے لوگوں کو ایسا روزگار ملتا ہے جس میں بہت زیادہ ہنر کی ضرور نہیں ہوتی ہے۔

خاص طور پر گارمنٹس مینوفیکچرنگ سیکٹر جس میں بنگلہ دیش ایک چیمپیئن ہے، اس میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت کرتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف انڈیا کی کوئی اقتصادی منزل نہیں ہے اور ایسا خصوصاً سنہ 2014 کے بعد سے ہوا ہے۔

مذہب

سوال 3: اس وقت انڈیا ایک کٹر ہندو ریاست بنتا نظر آرہا ہے اور اسی طرح پاکستان ایک انتہا پسند اسلامی ریاست دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش بظاہر سیکیولرزم اور مذہبی سیاست کے درمیان ایک توازن رکھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیا مذہب کے عنصر نے ان ممالک کی ترقی کی سمتوں کو متاثر کیا ہے؟ اگر کیا تو کیسے؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: مذہبی سیاست کے لحاظ سے بنگلہ دیش کے اپنے مسائل ہیں۔ یہ اِس وقت ایسا نظر آرہا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت کو کافی دیر بعد یہ خیال آیا ہے کہ ان تمام گروہوں نے جنھوں نے پاکستانی فوج کی کارروائی کی حمایت کی تھی، خاص کر جماعت اسلامی، ان کو سزائیں دے کر وہ مذہب کے سیاسی کردار کی ایک مختلف تصویر پیش کرے۔

تاہم یہ سب کچھ بدل سکتا ہے کیونکہ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی دونوں ہی اقتدار میں رہنے کے لیے جماعت پر انحصار کرتی تھیں۔

پروفسیر علی ریاض: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو نظر آرہا ہوتا ہے حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے۔ اس سوال میں یہ کہنا کہ بنگلہ دیش اس معاملے میں ایک توازن رکھ رہا ہے بذاتِ خود ایک وضاحت طلب معاملہ ہے۔

حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے، اور خاص کر بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ نے اپنی خراب حکمرانی کا جواز دینے کے لیے مذہب کا کارڈ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔

آکر پٹیل: بنگلہ دیش کی سیکیولرزم کی جانب واپسی حالیہ دور کی ایک پیش رفت ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس جانب بڑھتا رہے گا اگرچہ اس بات کی بھی امید ہے کہ جمہوری نظام کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور اپوزیشن کو بھی برداشت کیا جائے گا۔

انڈیا کا اقتصادی زوال اس کے اپنے کرموں کا نتیجہ ہے اور ایسا گزشتہ چند برسوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ زوال ان پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے جس سے معیشت اور لوگوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انڈیا میں اکثریتی آبادی کی حکمرانی کا انداز اور اس کی حکمران جماعت مختصر مدت، درمیانی مدت اور طویل مدت کے منفی اثرات پیدا کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سکیورٹی ریاست

سوال 4: پاکستان کو ہمیشہ ایک سکیورٹی ریاست کے طور پر سوچا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ضرورت سے زیادہ طاقتور ہوگئی، یعنی فوجی بالادستی پیدا ہوگئی۔ لیکن بنگلہ دیش میں اُس کی آزادی کے وقت شیخ مجیب جیسی مضبوط سویلین سیاسی قیادت کے باوجود فوجی بالادستی کیسے پیدا ہوئی؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: اس کی ایک وجہ تو بنگلہ دیش کی فوج کی اپنی نوعیت ہے جس میں کچھ ایسے افسران بھی تھے جنھوں نے آزادی کی جنگ میں شرکت کی تھی اور کچھ نے نہیں کی تھی۔

جنرل ضیاالرحمٰن کے اقدام نے بنگلہ دیش کو اُسی رستے پر ڈال دیا جو پاکستان کے حالات سے مختلف نہیں تھا۔ تاہم بنگلہ دیش کی اس بات پر تعریف ضرور کرنی چاہیے کہ اس نے ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو انتقال اقتدار کا تسلسل برقرار رکھا، جو پاکستان میں سنہ 2013 کے انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ ہوا۔

پروفیسر علی ریاض: صرف سویلین قیادت کی مضبوطی اپنے تئیں فوجی مداخلت کو روکنے کی ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ قیادت اور ان اداروں کی نوعیت کیا ہے جو فوجی مداخلت کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سویلین لیڈروں کا درجہ بدرجہ آمرانہ طرزِ حکمرانی (اتھاریٹیرینزم) کی سمت بڑھنے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں فوجی مداخلت کی گنجائش پیدا ہوئی تھی جو سنہ 1990 تک جاری رہی۔ بدقسمتی سے ہم آج کل دوبارہ سے ویسے ہی حالات کو دیکھ رہے ہیں جن میں ایک چھوٹی سی سیاسی اشرافیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک طبقہ ایک حکمران گروہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

آکر پٹیل: بنگلہ دیش کی سیاست سنہ 1947 کے بعد سے لے کر سنہ 1971 سے پہلے تک کے اس طویل عرصے میں مغربی پاکستان کے زیرِ تسلط رہنے کی وجہ سے کم ترقی یافتہ رہی۔ فوج اس ریاست کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ادارہ تھا، اس کی قیادت نے جب فیصلہ کرلیا تو پوری ریاست پر قبضہ کرلیا۔

سوال 5: انڈیا بھی چین سے اور کسی حد تک پاکستان سے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ محسوس کرتا رہا ہے۔ تو پھر وہاں فوجی حکومت کیوں نہیں بنی؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: اس کے جواب کے لیے آپ کو میری کتاب 'ڈیموکریسی اینڈ اتھاریٹیرینزم اِن ساؤتھ ایشیا' کو دیکھنا ہوگا۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے اس کے اہم اسباب میں ایک تو یہ ہے کہ کانگریس کو جب مرکز میں اقتدار ملا تو وہاں ایک مضبوط نظامِ حکومت موجود تھا (جبکہ پاکستان کو ایسا ڈھانچہ نئے سرے سے تعمیر کرنا تھا)۔

دوسرا سبب یہ تھا کہ کانگریس کی تنظیمی مشینری مسلم لیگ کی تنظیمی مشینری سے کہیں زیادہ مضبوط اور موثر تھی۔ اور تیسرا یہ کہ سرد جنگ کے دوران انڈیا اور پاکستان کا بالکل مختلف سمتوں کی جانب سفر کا آغاز، جس میں پاکستان عالمگیری سرمایہ دارانہ نظام میں پھنستا چلا گیا اور انڈیا نہرو کی قیادت میں امریکہ اور برطانیہ سے اتحاد بنانے سے گریز کرتا رہا۔

(اپنی کتاب میں ڈاکٹر عائشہ جلال یہ بھی کہتی ہیں کہ جس طرح پاکستان میں مذہب کے ذریعے مرکزی حکومت کو طاقتور بنایا گیا اسی طرح نہرو نے انڈیا کو سوشلسٹ اصلاحات کے ذریعے ایک مرکزی طاقت والا ملک بنایا)۔

پروفیسر علی ریاض: بیرونی خطرہ تنہا کبھی بھی فوجی مداخلت کا سبب نہیں بنا ہے۔ تاہم فوج سمیت ملک کے سکیورٹی کے ادارے اسے ایک خاص حیثیت حاصل کرنے کے لیے ایک جواز کے طور پر ضرور استعمال کرتے ہیں جو پھر حالات کی سمت کا تعین کرواتا ہے۔ انڈیا کے سویلین ادارے اور سیاسی جماعتیں اتنی طاقتور تھیں کہ انھوں نے فوجی مداخلت کو محدود رکھا جبکہ پاکستان اپنے آغاز سے ہی فوجی مداخلت کو روکنے میں ناکام رہا۔

آکر پٹیل: انڈیا سنہ 1947 سے پہلے سے ہی کافی ترقی یافتہ تھا اور بعد میں بھی قومی ترقی میں کانگریس کی وجہ سے بہتر کارکردگی دکھاتا رہا۔ اس لیے یہاں فوج کو اتنے مواقع نہ مل سکے۔ اس کے علاوہ انڈیا نے جس طرح کا نظام تشکیل دیا اس میں فوج کو سویلین بیوروکریسی کے تابع رکھا گیا تھا۔ پاکستان اور پھر بنگلہ دیش دونوں اس طرح کا نظام تشکیل نہ دے پائے۔

سیاسی استحکام

سوال 6: وہ کیا بنیادی عناصر ہیں جن کی وجہ سے انڈیا میں ایک مستحکم جمہوری نظام، آئین کی حکمرانی اور مستحکم سیاسی نظام فروغ پایا؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: انڈیا میں ایک مربوط اور مضبوط سیاسی جماعت پہلے ہی سے موجود تھی اور اُس ملک میں فوجی مداخلت کی کوئی تاریخ نہیں تھی لیکن اگر ایسا ہوا تو اسے تبدیل کرنا بہت مشکل ہوگا۔

(اپنی کتاب میں ڈاکٹر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ دعووں کے باوجود جمہوری اور نہ ہی سیکولر انڈیا اور نہ ہی فوجی تسلط اور اسلامی پاکستان اپنی کثیرالشناختی اور کثیرالقومی ریاستوں کی ایک قومی یکجہتی کا احساس پیدا کرنے میں کوئی خاص کامیابی حاصل کرسکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک مشترکہ ثقافتی روایت بھی قومی یکجہتی کے لیے زیادہ سازگار ثابت نہیں ہو سکی)۔

پروفیسر علی ریاض: جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ مضبوط ادارے ہی جمہوریت کے محافظ ہیں۔ اب تک انڈیا اس سلسلے میں کافی کامیاب رہا ہے۔ لیکن سنہ 2014 سے انڈیا میں ادارے کمزور ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں جمہوریت بتدریج کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اب انڈیا کو ایک منتخب آمریت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

آکر پٹیل: انڈیا میں تین دہائیوں تک کانگریس کے طویل اقتدار میں رہنے اور اس کی اندرونی قیادت کے استحکام کی وجہ سے آئینی جمہوریت مضبوط ہوئی۔ اگرچہ اقتصادی اور دیگر میدانوں کی کارکردگی پر تنقید کی جا سکتی ہے، تاہم سیاسی حوالے سے معاملات کافی حد تک بہتر طور پر چلائے گئے۔ یہ نظام ایک مستحکم صورت اختیار کر چکا ہے اگرچہ حال ہی میں ہونے والی پیش رفت باعثِ تشویش ہے۔

سوال 7: اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو پاکستان کا سیاسی نظام ہمیشہ خطرے میں رہا ہے۔ کیا پاکستان میں انڈیا جیسا استحکام پیدا ہو سکتا ہے، خاص کر ایسے حالات میں جب اِسے خطے میں کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: یہ ممکن تو ہے لیکن پاکستان کو خطے کی طاقتوں کے بارے اپنی پالیسیوں کا مکمل طور پر از سرِنو جائزہ لینا پڑے گا اور ملک کو ایک مضبوط اور طاقتور وفاق بنانا ہوگا۔

پروفیسر علی ریاض: پاکستان میں جمہوریت کے فقدان میں علاقائی حالات کا برائے نام کردار ہے۔ اس کی اصل وجہ فوج کی غیر متناسب طاقت اور اثر و رسوخ، کمزور ادارے اور سیاسی جماعتوں کا مصلحت والی پالیسی پر راضی رہنا اور اشرافیہ کو تحفظ دینے والے سماجی ڈھانچے کا ہونا بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کے بنیادی اسباب ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آکر پٹیل: پاکستان اِس وقت ایک مستحکم ملک ہے اور اس بات کا کم امکان ہے کہ فوجی حکومت کا دور لوٹ آئے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فوج جوہری کمانڈ پر مکمل کنٹرول کر لینے کی وجہ سے اب موجودہ سیاسی نظام سے گہرے انداز میں پیوستہ ہو چکی ہے۔ اس بات کا کافی امکان ہے کہ سی پیک کی بدولت پورے خطے کے انضمام سے فوج استفادہ کرے۔

مستقبل

سوال 8: کیا موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بنگلہ دیش میں استحکام پائیدار رہ سکے گا؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: بنگلہ دیش میں اپوزیشن نے پچھلے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اس لیے وہاں کے حالات میں پہلے سے ہی عدم استحکام کا ایک اہم عنصر موجود ہے۔

پروفیسر علی ریاض: بنگلہ دیش میں ظاہری سیاسی استحکام کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ جمہوری ماحول مکدر ہوگیا ہے، آزادئِ اظہارِ رائے پہ زوال آچکا ہے، عوامی اجتماعات منعقد کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے اور اپوزیشن کو مسلسل مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورا انتخابی نظام اس حد تک جکڑ دیا گیا کہ حکمران جماعت کی کامیابی یقینی ہوجائے۔ ایسے حالات ایک طویل مدت کے لیے کبھی پائیدار نہیں رہتے ہیں۔

آکر پٹیل: میں یہی امید کرتا ہوں۔ تاہم جب تک اپوزیشن کے لیے گنجائش پیدا نہیں کی جاتی ہے جمہوریت غیر مستحکم رہے گی۔ اگلے برس ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے بہت اہم ہوں گے۔

سوال 9: کیا آپ کو اس بات کا امکان نظر آرہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا اپنے تنازعات کو طے کرلیں اور پھر بنگلہ دیش کے ہمراہ سارک کو ایک موثر فورم بنا سکیں؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: جی نہیں۔ جب تک مودی اور امِت شاہ اقتدار میں ہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔

پروفیسر علی ریاض: سارک اب اپنی موت آپ مرچکا ہے، بہتر ہے کہ ہم اس کی باقاعدہ تدفین کردیں۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہیں گے کیونکہ کشیدگی دونوں ملکوں کے متعدد سیاسی اور فوجی کرداروں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

اس کشیدگی کی ایک اپنی اقتصادی جہت بھی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان حالات کو بہتر نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن بجائے اس کے ان پر علاقائی سطح پر کوئی انتظام بنایا جائے، ہر تنازعے کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کی جائے یا حالات کو بہتر کیا جائے۔

جہاں تک پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا معاملہ ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کی نسل کُشی پر معافی مانگے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی۔

آکر پٹیل: میرے خیال میں یہ ناگزیر ہے۔ جب انڈیا موجودہ پاگل پنے اور اپنی اقلیتوں کو نقصان پہنچانے کی خواہش سے نجات پا جائے گا اور علاقائی صورت حال مستحکم ہو جائے گی تب بہتر رابطوں کا سلسلہ بڑھے گا۔ سرحدوں کے آر پار مال، خدمات اور لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت کا وقت زیادہ دور نہیں ہے اور میرا اندازہ ہے کہ ایسا ہونے میں زیادہ سے زیاہ دو دہائیاں لگیں گی۔

سوال 10: اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اقتصادی ترقی ہوئی ہے، تاہم ان ممالک کے عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی ہے۔ کیا ان ممالک کے غریب عوام کے لیے کوئی امید ہے، یا یہاں عدم مساوات کا برقرار رہنا ناگزیر ہے؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: امید تو ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ لیکن مراعات یافتہ طبقہ کبھی بھی اپنی مراعات سے خود دستبردار نہیں ہوگا، اسے سڑکوں اور گلیوں میں عوامی جد و جہد کے ذریعے مراعات چھوڑنے پر مجبور کرنا ہوگا۔

پروفیسر علی ریاض: بڑھتی ہوئی عدم مساوات ناگزیر نہیں تھی، لیکن یہ ان اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو ان ملکوں کی حکومتوں نے اپنائیں۔ ان ملکوں کی موجودہ پالیسیاں غریبوں کے خلاف ہیں جنھوں نے کمزور طبقوں کو پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔

ان پالیسوں میں تبدیلی کے لیے ایک بڑے سیاسی عزم کی ضرورت ہے جس کی بدقسمتی سے شدید کمی ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت کے سیاسی منظرنامے میں کوئی بھی ایسی سیاسی تحریک یا قوت نظر نہیں آرہی ہے جو موجودہ اقتصادی نظام کو چیلینج کرنے کی ہمت رکھتی ہو یا اس میں اصلاحات لانا چاہتی ہو۔

آکر پٹیل: معاشی لحاظ سے کوئی زیادہ امید نہیں ہے۔ آٹومیشن اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا مطلب یہ ہو گا کہ ترقی یافتہ ملک بننے کے روایتی راستے یا تو بند ہو جائیں گے یا بند ہونے کے قریب ہوں گے (روایتی راستوں کا مطلب ہے اسمبلی پلانٹ اور مینوفیکچرنگ کے ذریعے ویلیو ایڈ کرنے والا پیداواریت کا سلسلہ)۔

ان تینوں ممالک کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنے اپنے عوام کی بڑی تعداد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا کریں، وہ جن کے پاس وسائل نہیں یا ان کی کمی ہوگی جبکہ دولت کی تقسیم بہت ہی غیر متناسب طریقے سے ہوگی جس میں بہت ہی کم افراد کے پاس بے انتہا دولت ہوگی۔

انڈیا میں یہ حالت ہو چکی ہے جہاں اسی کروڑ عوام کو صرف چھ کلو مفت چاول، گندم یا دال لینے کے لیے ہر ماہ قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسی ملک میں ایشیا کے امیر ترین افراد بھی رہتے ہیں۔

سوال 11: ان تینوں ممالک کے معاشروں میں نسلی، فرقہ وارانہ اور کمیونل دراڑوں کا مستقبل کیا ہے؟

ڈاکٹر عائشہ جلال: یہ جنوبی ایشیا کی ان ریاستوں کے مستقبل کو تشکیل دینے کے لیے اپنی تبدیلیوں اور مختلف ترتیبوں کے ساتھ جاری و ساری رہیں ہیں اور برقرار رہیں گی۔

پروفیسر علی ریاض: کاش میں اس بارے میں پُر امید ہوتا، لیکن میں نہیں ہوں۔ اس قسم کی تقسیم جان بوجھ کر پیدا کی گئی اور ان کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ جنوبی ایشا کی ریاستیں اپنی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔

جب تک ان کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی ہے یہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔ عدم رواداری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت امید کی کرن یہ ہے کہ ان اقلیتوں کے اکثر لوگ عدم رواداری کے مخالف ہیں۔

آکر پٹیل: میں آنے والے وقت میں ان تینوں معاشروں میں سیکولر اور تکثیریت کا مستقبل دیکھ رہا ہوں، میرے خیال میں آئندہ دو ڈھائی دہائیوں میں ایسا وقت آسکتا ہے۔