’یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال پر الزام عائد کرنے کو کہا تھا‘
مشال خان کے قتل کے خلاف پاکستان میں مظاہرے ہوئے ہیں
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالبعلم مشال خان کے کیس میں گرفتار ایک ملزم نے مبینہ طور پر اعتراف جرم کرتے ہوئے واقعے کی ساری ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈال دی ہے۔
حکام کی جانب سے اس اعترافی بیان کے بعد کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق مردان پولیس کی طرف سے پیر کو ذرائع ابلاغ کو ملزم وجاہت کی طرف سے مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان کے بارے میں جو تفصیلات جاری کی گئی ہیں ان کے مطابق ملزم کی طرف سے اعتراف جرم کیا گیا ہے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت کے طالبعلم مشال خان کو 13 اپریل کو مشتعل طلبا اور دیگر افراد نے توہینِ رسالت کا الزام لگانے کے بعد یونیورسٹی کے ہوسٹل میں تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔
اس مقدمے میں گرفتار ملزم وجاہت نے مردان میں مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں 13اپریل کو چیئرمین کے دفتر میں بلایا جہاں 15 سے20 لوگ موجود تھے جن میں انتظامیہ کےاہلکاروں کے علاوہ لیکچرار ضیاء اللہ، اسفند یار،لیکچرار انیس، سپرٹنڈنٹ ارشد، کلرک سعید اور ادریس موجود تھے۔
مردان پولیس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق وجاہت نے کہا کہ انھیں یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال اور ان کے ساتھیوں کے خلاف تقریر کرنے کو کہا اور انھیں کہا گیا کہ وہ یہ بولیں کہ ان افراد نے توہین رسالت کی ہے۔
ملزم وجاہت نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ان کی طرف سے لوگوں کو بتایا گیا کہ مشال، عبداللہ اور زبیر نے توہین مذہب کی ہے جس کے بعد فہیم عالم نے فوری گواہی بھی دے دی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اگر انہیں اس سازش کا پتہ ہوتا تو وہ اس دن یونیورسٹی ہی نہ آتے۔‘
ملزم کا بیان میں مزید کہنا ہے کہ سکیورٹی انچارج بلال نے انہیں کہا کہ جس نے مشال کی طرفداری کی اس سے بھی سختی سے نمٹا جائے گا اور وہ خود مشال کو ماریں گے۔
وجاہت کے مطابق اگر وہ اس وقت ایسا بیان نہ دیتے تو وہاں جمع ہونے والے طلباء واپس چلے جاتے جو بعد میں ان کے بیان کے بعد مشتعل ہو گئے اور انہوں نے بلوہ کر دیا۔
ملزم نے اعترافی بیان میں مزید کہا کہ اس ساری کہانی میں ان کا کردار یہ ہے کہ انھوں نے مشال خان کے توہینِ مذہب کرنے سے بیان دیا جس پر وہ نادم ہیں۔
اس سے پہلے خیبر پختونخوا کی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اب تک کی تحقیقات کے دوران طالبعلم مشال خان اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے نازیبا کلمات کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشال خان اور ان کے دو ساتھیوں عبداللہ اور زبیر پر یونیورسٹی کے طلبا نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کا الزام لگایا تھا اور اس معاملے پر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی۔
آئی جی کا کہنا تھا کہ یہ انکوائری مشال خان کے قتل سے چند گھنٹے قبل شروع کی گئی اور اس معاملے میں مشال خان کو صفائی کا موقع ہی نہیں ملا۔
آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تفتیش درست سمت میں جا رہی ہے اور منگل تک واقعے کی تمام تفصیلات سپریم کورٹ کو بھیج دی جائیں گی۔
ان کے مطابق مشال خان اور زبیر نامی طالبعلم اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے بلکہ صرف عبداللہ پیش ہوا جس نے کمیٹی کے سامنے خود پر اور اپنے ساتھیوں پر لگے الزامات کی تردید کی تھی۔
خیال رہے کہ جس دن مشال خان کو قتل کیا گیا اسی روز عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا جس میں مشال خان، عبد اللہ اور زبیر پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے ان کو یونیورسٹی سے خارج کرنے کی بات کی گئی تھی۔
آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تفتیش درست سمت میں جا رہی ہے اور منگل تک واقعے کی تمام تفصیلات سپریم کورٹ کو بھیج دی جائیں گی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اس قتل کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی ہے۔