’سسر نے بحال کیا تھا، داماد نے نااہل کر دیا‘

  • شہزاد ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
نواز شریف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

15 جون سنہ 1993 اور 28 جولائی 2017 میں فرق یہ ہے کہ اس وقت وہ مدعی تھے اور اب وہ مدعا علیہ

سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک کا منظر 24 سال پہلے سنہ1993 کے منظر سے بالکل ہی مختلف تھا۔ 24 برس پہلے جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی بحالی کے لیے عدالت عظمی کا فل کورٹ بینچ بیٹھا تھا اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے وزیراعظم اور اُن کی کابینہ کو بحال کیا تھا۔

وزیراعظم کی حکومت کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت ختم کردیا تھا۔

15 جون سنہ 1993 اور 28 جولائی 2017 میں فرق یہ ہے کہ اس وقت وہ مدعی تھے اور اب وہ مدعا علیہ۔

نواز شریف اور ان کی حکومت کی بحالی کے وقت بھی شاید اتنے لوگ کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے جتنے آج اُن کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ سننے کے لیے موجود تھے۔

لوگ دو گھنٹے قبل ہی کورٹ روم نمبر ایک میں پہنچ گئے تھے اور وہاں پر لوگوں کا اتنا زیادہ رش تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار جو کہ وزیر اعظم کے نااہلی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں ہیں، ان کو یہ کہنا پڑا کہ سکیورٹی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

لوگ اتنے زیارہ تھے کہ سپریم کورٹ کے سکیورٹی انچارج کو ججز کے سامنے لگے ہوئے مائیک کو استعمال کرنا پڑا اور وہاں پر موجود لوگوں کو یہ کہنا پڑا کہ خاموشی اختیار کی جائے ورنہ زبردستی خاموش کروانا پڑے گا۔

کمرۂ عدالت میں موجود لوگوں کی نظریں ججز کے اس دروازے پر لگی ہوئی تھیں جن کے کھلنے کے بعد وزیراعظم سمیت بہت سے لوگوں پر سیاست کے دروازے بند ہونے جارہے تھے۔

کمرہ عدالت میں موجود لوگ دیواروں پر لگی ہوئی پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصاویر کو دیکھ رہے تھے اور ان میں سے بعض ججز پر تبصرہ کررہے تھے جنھوں نے نظریہِ ضرورت کے تحت اس وقت کے فوجی آمروں کا ساتھ دیا تھا۔

کمرہ عدالت میں سینیئر سیاست دان جاوید ہاشمی کے بیان کا بھی تذکرہ ہوا جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ چونکہ اب آئین سے 58 ٹو بی کو ختم کردیا گیا ہے اور اب سیاست دانوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کے تحت کارروائی ہوگی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جاوید ہاشمی کے بیان کا بھی تذکرہ ہوا جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ اب سیاست دانوں کے خلاف آئین کے ارٹیکل 62 اور63 کے تحت کارروائی ہوگی

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ارکان پارلیمان کے صادق اور امین ہونے سے متعلق آئین میں درج مذکورہ آرٹیکل سابق فوجی صدر ضیا الحق نے متعارف کروائے تھے اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود جمہوری حکومتیں ان شقوں میں کوئی تبدیلی نہ لاسکیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی جو آئین کو اپنی اصلی حالت میں بحال کرنے کا کریڈٹ لیتی ہے وہ بھی ان شقوں میں ترامیم لانے کی جرات نہیں کرسکی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ جو آنجہانی چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں، کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ وزیر اعظم اور اُن کے بچوں کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنانے کے لیے آیا تو لوگوں سے کچھا کھچ بھرے ہوئے کمرے میں ایسی خاموشی چھا گئی جیسے یہاں پر کوئی ہے ہی نہیں۔

فیصلہ سنتے وقت کمرہ عدالت میں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان کے چہروں پر بہت زیادہ سنجیدگی چھائی ہوئی تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کے چہروں ہر رونق دیدنی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک نمائندہ وفد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا اور اُنھوں نے وہاں پر بیٹھے ہوئے حکمراں جماعت کے ارکان پارلیمنٹ کو کہا کہ وہ ناراض نہ ہوں وہ یہاں پر صرف فیصلہ سننے آئے ہیں لڑائی کرنے کے لیے نہیں۔

سپریم کورٹ نے جونہی نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سنایا تو وہاں پر موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے نعرے لگا دیے جس پر عدالت کو مداخلت کرنا پڑی۔

،تصویر کا کیپشن

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کے چہروں ہر رونق چھائی رہی

فیصلے کے بعد کمرہ عدالت میں موجود سپریم کورٹ کے سنیئر وکلا آپس میں یہ گفتگو کر رہے تھے کہ سسر ( نسیم حسن شاہ) نے تو نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا لیکن اب اُن کے داماد ( جسٹس آصف سعید کھوسہ) نے وزیر اعظم کو نااہل کردیا۔

فیصلہ سننے کے بعد اطلاعات ونشریات کی سابق وزیر مملکت مریم اوررنگ زیب اور دیگر مسلم لیگی خواتین سپریم کورٹ کی عمارت میں ایک کونے میں افسردہ کھڑی تھیں۔

پانی وبجلی کے سابق وزیر مملکت عابد شیر علی سپریم کورٹ سے باہر نکلے تو وہاں پر موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں اور وکلا نے گھیرے میں لے لیا اور گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ گئی اور پولیس اہلکار اپنی حفاظت میں عابد شیر علی کو وہاں سے نکال کر لے گئے۔