خادم حسین رضوی: تحریک لبیک پاکستان کے بانی کون تھے؟

،تصویر کا ذریعہAFP
مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ پھر نومبر 2017 میں انھوں نے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا۔ تین برس بعد نومبر 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسی مقام پر دھرنا دیا تھا جو حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا۔
خادم حسین رضوی کا آغاز
لاہور کی ایک مسجد کے خطیب نے اصل شہرت نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دے کر حاصل کی تھی۔ اس سے قبل وہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے معاملے میں بھی کافی سرگرم رہے تھے اور وہیں سے انھوں نے اپنی دینی سرگرمیوں کو سیاست کا رنگ دیا۔
بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
یہ بھی پڑھیں!
مبصرین کے مطابق ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے بریلوی طبقے کے قدامت پسندوں نے زیادہ متحرک سیاسی کردار اپنایا۔ لیکن پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ اور بریلوی دیوبندی اختلاف سال 2012 کے بعد سے دیکھا گیا۔
خادم حسین رضوی کو سنہ 2017 کے احتجاجی دھرنے میں سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل رہی تھی۔

،تصویر کا ذریعہARIF ALI
انھیں کس کی حمایت حاصل تھی؟
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں فیض آباد دھرنے سے متعلق تاثر تھا کہ اس دوران احتجاج کرنے والوں کو کسی نہ کسی صورت پاکستان فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اس بابت احتجاج کے اختتام پر رینجرز کی جانب سے مظاہرین میں رقوم کی تقسیم کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
تاہم مبصرین کے خیال میں انھیں کسی کی پشت پناہی حاصل رہی ہو یا نہ ہو وہ معاشرے کے ایک خاص قدامت پسند طبقے میں اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر سڑکوں پر نکلتے ہیں۔
ماضی میں ان کی تقریروں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اور ان کی تحریک کے دیگر سینئر رہنما جس قسم کی زبان فوج اور عدلیہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انھیں اپنی طاقت پر حد سے زیادہ اعتماد ہوگیا ہے۔
ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ہیں۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں۔ ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا ہے۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس بنائی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ بنے۔ وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا ’چوکیدار‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہEPA
خادم حسین رضوی کہاں سے تھے؟
تحریک کے ایک ترجمان اعجاز اشرفی نے نے ماضی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ ’شیخ الحدیث‘ بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کے دو بیٹے بھی مختلف احتجاج میں شریک رہے ہیں۔ خادم حسین ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے۔
وہ 22 جون 1966 کو ’نکہ توت‘ ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ان پر مختلف نوعیت کے کئی مقدمات بھی درج تھے۔ اعجاز اشرفی نے بتایا کہ ان مقدمات کی تعداد کتنی ہے انھیں یاد نہیں۔
جنوری 2017 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انھوں نے لاہور میں ایک ریلی نکالی تھی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا اور انھیں آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ انھیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کو آگاہ رکھنا ہوتا تھا۔ آئی ایس آئی کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’خادم حسین رضوی اپنے سے اونچے عہدے والوں کے سامنے مغرور اور ماتحتوں کے ساتھ بدتمیز ہیں‘۔
تحریک لبیک کے مالی وسائل کیا ہیں؟
خادم حسین رضوی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے وسائل کہاں سے ملتے تھے یہ واضح نہیں لیکن اسلام آباد دھرنے کے دوران انھوں نے اعلان کیا تھا کہ نامعلوم افراد لاکھوں روپے ان کو دے کر جاتے ہیں۔ ماضی میں احتجاج کے دوران ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ واٹس ایپ پر ایک فون نمبر کے ساتھ ایک پیغام گردش کر رہا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر احتجاج کے دوران کسی کارکن کو کوئی سہولت مثلاً موبائل بیلنس، پیسے یا کھانا درکار ہو تو اُس نمبر پر پیغام بھیجے۔ اس سے بظاہر لگتا ہے کہ اندرون و بیرون ملک دونوں جانب سے انھیں فنڈ ملتے تھے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
خادم حسین رضوی کو آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا ہے
خادم رضوی کا انداز بیان
خادم حسین رضوی کی کڑی تنقید کا نشانہ محض صاحب اقتدار ہی نہیں بلکہ مرحوم عبدالستار ایدھی جیسی شخصیت بھی رہی ہیں۔ وہ اپنے اجتماع میں آئے ہوئے صحافیوں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی بڑے سخت انداز میں مخاطب کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ ایسے دعوے بھی کرتے تھے جنھیں عملی جامعہ پہنانا شاید ناممکن ہو۔ ایسا ہی ایک بیان انھوں نے کراچی میں دیا تھا کہ ’اگر ان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو وہ ہالینڈ کو کارٹون بنانے کا مقابلہ منعقد کرنے سے پہلے ہی پوری طرح سے برباد کردیتے۔‘ حالیہ دنوں میں بھی ان کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ایٹم بم کو نکال کر استعمال کرو۔