زندہ بچ جانے کا گناہ معاف کردیں
- جاوید سومرو
- بی بی سی اردو، لندن
ملالہ یوسفزئی سے آبادی کا ایک حصہ نفرت کیوں کرتا ہے؟ یہ سوال پاکستان سے متعلق کئی دیگر سوالوں کی طرح مجھے ہمیشہ ہی تنگ کرتا ہے۔ ہمارے جیسے ہر فن مولا ٹائپ تجزیہ نگار جو سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا ہے، وہ بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔
کبھی کبھی اپنے ذہن میں ٹٹولتے ہوئے اس سوال کو جواب آتا تھا کہ لوگ اس لیے ملالہ کے خلاف ہیں کیونکہ وہ اس بھلے مانس کی گولی سے بچ گئی تھیں جس نے تاک کر ان کی کنپٹی پر فائر کیا تھا۔ لیکن پھر خود ہی اس جواب کو جھٹلا دیتا تھا کہ کیا بکواس جواب تلاش کیا ہے۔ بھلا لوگ ان کے بچ جانے پر کیوں رنجیدہ ہوں گے؟
لیکن اب جب ملالہ پاکستان پہنچی ہیں اور میں نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر ان کے خلاف نفرت انگیز کلمات اور تصاویر دیکھیں ہیں تو میرے اس خدشے کو تقویت مل رہی ہے۔ آپ میں سے بیشتر لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر ملالہ کے خلاف تلواریں تیز کیے ہوئے ہیں، وہ ایسے معصوم لوگوں کی تصایر شیئر کر رہے ہیں جو شدت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں اور اس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے ہیرو ۔۔۔ ملالہ نہیں۔
جو لوگ، بچے، عورتیں، جوان، بوڑھے وطن عزیز میں اپنے کسی ناکردہ گناہ کی وجہ سے مارے گئے ہیں، یا اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کے فرائض انجام دینے کے جرم میں مارے گئے ہیں، وہ سب قابل احترام و عزت ہیں۔ وہ ضرور ہمارے ہیرو ہیں ۔۔۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان کے ہیرو ہوتے ہوئے ملالہ کیوں ہیرو نہیں بن سکتی۔ کیوں صرف وہی ہیرو ہوسکتے ہیں جو زندہ نہ بچ سکے یا اگر زندہ بچ گئے تو ملک سے باہر نہیں گئے۔ کیا ملک سے باہر جانا، پڑھنا یا رہنا کسی کو غدار اور ملک دشمن کر دیتا ہے۔
یہ 20 برس کی نوجوان کارکن جس نے نہ کبھی کسی سے کچھ مانگا، نہ کسی کو ستایا، نہ سیاسی قلابازیاں کھائیں، نہ پاکستان کے خلاف کوئی بات کی، بچپن سے لیکر اب تک صرف لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا، اسی وجہ سے کنپٹی پر گولی کھائی، پھر بچ جانے کے بعد جب انھیں دنیا بھر سے پذیرائی ملی تو تعلیم کے لیے اپنا کام جاری رکھا، کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ہوکر ملک کا نام روشن کیا، پاکستان اور دنیا بھر کے کئی ممالک میں تعلیم کے لیے اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے لاکھوں پاؤنڈ کے چندے دیے، تو پھر کیوں لوگ انھیں ہیرو تو کیا الٹا نفرت سے جواب دے رہے ہیں۔
پڑھے لکھے انپڑھوں نے تو ان کی ایک بابے کے ساتھ تصویر شائع کرکے لکھا، ’وہ سلمان رشدی کے ساتھ کھڑی ہیں‘۔ ظاہر ہے وہ سلمان رشدی کو جانتے تک نہیں۔
کچھ وطن پرستوں نے الزام لگایا وہ مغرب کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ اگر مغرب کا ایجنڈا واقعی اتنا اچھا ہے جو پاکستان میں تمام بچوں کو تعلیم دلانا چاہتا ہے تو بھئی پھر ہم سب کو مغرب کے ایجنڈے پر کام نہیں کرنا چاہیے؟ کیا ہماری حکومتوں کو نہیں چاہیے کہ وہ مغرب کے ایجنڈے پر کام کریں اور تمام بچوں کو تعلیم دیں۔
پھر کہتے ہیں جی ملکی افواج کے خلاف بات کی۔ پہلے تو یہ کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا یا پڑھا کہ ملالہ نے پاکستانی فوج کے خلاف بات کی ہو۔ دوسرے یہ کہ فوج کے کسی عمل یا پالیسی پر تنقید کرنا بلکل بھی ملک کے خلاف بات کرنا نہیں۔ ماضی اور حال کے کئی فوجی جرنیلوں نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو قابل تنقید ہیں۔ ان پر تنقید کرنا ملک کی بہتری کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان عقلمند تنقید نگاروں کو یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ ملالہ کو پاکستان میں تمام سکیورٹی فوج ہی فراہم کر رہی ہے، اور فوجی ہیلی کاپٹر میں ہی ان کو سوات لے جایا گیا ہے۔
وہ صاحب جن کی سوٹ اور ٹائی میں تصویریں سوشل میڈیا پرگردش کر رہی ہیں اور بعض نجی سکولوں کی ملالا مخالف مہم ’میں ملالہ نہیں‘ چلا رہے، بظاہر پڑھے لکھے شخص نظر آتے ہیں۔ لیکن کوئی ان شخص سے کوئی پوچھے کہ وہ سکولوں کے بچوں بچیوں کے ذہنوں پر ملک کی ایک باصلاحیت اور امداد کرنے والے لڑکی کے بارے میں کیا سوچ قائم کریں گے۔ اور کوئی ان اساتذہ سے پوچھے کہ چھ سات برس کے بچوں کو جو نفرت سکھا رہے ہیں تو کل ان سے محبت کی توقع کیسے رکھی جائے گی۔
مانا کہ ملالہ سے زندہ بچ جانے کا گناہ ہوگیا ہے ۔۔۔ لیکن اب اس بچی کو معاف کردیں پھر ایسی غلطی نہیں کرے گی۔