شمشان گھاٹ کی جگہ فراہم نہ کرنے پر متعلقہ حکام طلب
پشاور ہائی کورٹ نے صوبے میں سکھوں کو شمشان گھاٹ کے لیے فنڈز کی منظوری کے باوجود اب تک جگہ اور ایمبولینس فراہم نہ کرنے پر متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کر لی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اکرام اللہ جان اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بنچ نے منگل کو اس مقدمے کی سماعت کی۔
سکھ کمیونٹی کی جانب سے بابا جی گروپال سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی برادری میں میت کی آخری رسومات کے لیے انھیں صوبہ پنجاب کے شہر اٹک جانا پڑا کیونکہ پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں ان کے لیے کوئی شمشان گھاٹ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ان کا مزید کہنا تھا کہ شمشان گھاٹ کے لیے زمین کی خریداری اور میت کو شمشان گھاٹ تک لے جانے کے لیے ایمبولینس فراہم کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے اور اس کے لیے فنڈز دستیاب بھی ہیں لیکن زمین کی خریداری میں تاخیر کی وجہ سے دستیاب فنڈز ضائع ہو رہے ہیں۔
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی نے تاخیری حربوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں معلوم ہے کہ حکومت سے کیسے پیسے نکالے جاتے ہیں؟
عدالت نے ڈپٹی کمشنر پشاور، ایڈمنسٹریٹر اوقاف اور ناظم ٹاؤن ون کو 31 مئی کو طلب کر لیا ہے۔
سکھ کمیونٹی کی جانب سے بابا جی گروپال سنگھ اور سابق رکن صوبائی اسمبلی سورن سنگھ نے یہ درخواست اڑھائی سال پہلے خورشید ایڈووکیٹ کی وساطت سے عدالت میں دی تھی۔
خورشید ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ تمام اقلیتوں کو بنیادی ضروریات پوری کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور سکھ اور ہندو ایک بڑے عرصے سے اس بنیادی مذہبی ضرورت سے محروم ہیں۔
بابا جی گروپال سنگھ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 60,000 کے لگ بھگ بھگ سکھ اور ہندو آباد ہیں لیکن ان کے لیے شمشان گھاٹ اور مذہبی طریقے سے آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے۔