شاہ محمود قریشی: ’پاک امریکہ تعطل ختم، کوئی ڈو مور کا مطالبہ نہیں ہوا‘

عمران خان

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

امریکی وفد کے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستانی فوج کہ سربراہ قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک روزہ دورے پر پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سمیت اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کرنے کے بعد انڈیا روانہ ہو گئے ہیں۔

وزیرِ اعظم سے ملاقات کے دوران پاکستانی وزیرِ خارجہ اور پاکستانی فوج کہ سربراہ قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔

اس سے پہلے امریکی فوج کے جوائن چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ کے ہمراہ پاکستان آمد کے بعد مائیک پومپیو نے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔

اسی بارے میں

امریکہ کا دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کا مطالبہ

امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کی بّری فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کے درمیان زیادہ گہرے تعاون کی امید کا اظہار کیا۔

بیان کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والے ملاقاتوں میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پیغام دیا کہ پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن اور مستقل اقدامات کرے۔

،تصویر کا ذریعہEPA

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

بیان کے مطابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زور دیا کہ افغانستان میں بات چیت کے ذریعے امن لانے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

دسوری جانب امریکی وزیرِ خارجہ کے انڈیا چلے جانے کے بعد شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو ملاقات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ’ٹف ٹالکنگ‘ ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ڈو مور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقاتوں کے دوران پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔

وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا ’پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔ میں نے پاکستان کا موقف پیش کیا، حقیقت پسندانہ موقف پیش کیا۔ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جس سے قوم کی توقعات بلند ہوں۔‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا ’میں نے پاکستان کا نقطہ نظر برد باری، خوداری اور ذمہ داری سے پیش کیا۔‘

امریکی اہلکاروں سے ملاقات میں کشیدگی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ کو باڈی لینگویج سے اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ ملاقات خوشگوار تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے اور وہ جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے لیے جائیں گے تو اسی دوران ان سے بھی ملاقات کریں گے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن

افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بات عمران خان برسوں سے کہہ رہے کہ اس تنازعے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ ہمیں مذاکرات سے یہ تنازع حل کرنا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے بھی کہا کہ اس حوالے سے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کام کرے گا اور دیگر ادارے بھی ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اس سے یہ عندیہ ملا کہ طالبان کے ساتھ براہِ راست بات کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہے۔‘

’ایک اور معنی خیز بات ہے کہ امریکہ افغانستان میں غیر معینہ مدت کے لیے نہیں رہنا چاہتا۔ ‘

پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا قیامِ امن کے لیے تعلقات میں سچائی ناگزیر ہے۔

’میں نے انھیں واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر اس تعلق میں آگے بڑھنا ہے تو اس کی بنیاد سچائی پر ہونی چاہیے۔ جو آپ سمجھتے ہیں وہ کہیں میں سنوں گا اور جو میں سمجھتا ہوں وہ کہوں گا اور آپ کو سننا ہوگا۔ جب ہم ایک دوسرے کے خدشات نہیں سنیں گے تو پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔‘

’ہم نے ان کی خواہشات کو بھی سمجھا اور اپنی توقعات اور خدشات ان کے سامنے رکھے۔ اچھے انداز میں۔ ‘

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد امن استحکام، علاقائی وابسگتی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے معاون بننا ہوگا۔ ‘

اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستان کا ہوگا۔

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

مائیک پومپیو پاکستان میں اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات کریں گے

وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا ’افغانستان ہمارا پڑوسی بھی ہے۔ ہم ایک دوسرے کا سہارا بھی ہیں، ضرورت بھی ہیں۔ ہمیں روایات، کلچر اور مذہب نے جوڑا ہوا ہے۔ ان کے ہاں استحکام سے پاکستان بھی مضبوط ہو گا۔ اور پاکستان کی ترقی سے افغاسنتان کو بھی فائدہ ہوگا۔ ‘

پاکستان کی سول ملٹری یک جہتی

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومیو سے پاکستانی حکام کی کی پہلی ملاقات دفتر خارجہ میں ہوئی اور پھر وزیرِ اعظم سکریٹیریٹ میں ملاقات ہوئی۔ دوسری ملاقات میں وزیرِ اعظم، آرمی چیف، ڈی جی آئی اس آئی اور امریکی جنرل سمیت سب نے ایک ساتھ بیٹھ کا تبادلہِ خیال کیا۔

اس حوالے سے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ماضی میں سول اور فوجی الگ الگ ملاقاتیں چہ مگوئیوں کا باعث بنتی تھیں۔ آج کی مشترکہ ملاقات سے سول ملٹری یک جہتی کا پیغام گیا ہے۔

افغانستان میں امن مذاکرات میں پاکستانی کی مدد کے حوالے سے ہم نے کہا یقیناً پاکستان اپنا کردا ادا کرے گا تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’اگر ہم نے اپنی مغرب کو توجہ دینی ہے تو مشرق میں سہولت چاہیے۔‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج کی نشست ایک سیر حاصل نشست تھی ایک دوسری کے نقطہ نظر کوسمجھنے کے لیے۔

’ہم ملے سنا سمجھا اور مستقبل کے فیصلے کے لیے واشنگٹن میں ملاقات کا فیصلہ کیا۔ ‘

’ہم نے واضح کیا کہ نیم اینڈ شیم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ماحول خراب ہوتا ہے۔ ہمارے کچھ چیلنجز ہیں۔ تاہم آج کی نشست نے باہمی تعلقات میں تعطل کو توڑ دیا ہے۔ ‘

امداد سے انکار

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا چونکہ پاکستان کو ہمیشہ امداد طلب نہیں کرنی اس لیے اس حوالے سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’300 ملین ڈالر کی امداد روکنے کی خبر نئی نہیں تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس معاملہ پر بات نہ کی جائے کیوں کہ ہمارا تعلق صرف لینے دینے کا نہیں ہے۔ ‘

’ہم اپنی گندم اگا سکتے ہیں، ہم اپنے لوگوں کو اپنے وسائل سے عزت سے روٹی کھلا سکتے ہیں۔‘

پومپیو تعلقات کی بحالی کے لیے پر امید

پومیپیو نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’پاکستان میں میں نے جنرل جو ڈنفورڈ سمیت دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستانی وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور سفارتی اور فوجی تعلقات پر تبادلہِ خیال کیا۔

اس سے پہلے امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستان روانگی کے موقع پر امید ظاہر کی تھی کہ ان کے اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہوں گے۔ مائیک پومپیو نے یہ بات جنوبی ایشیائی ممالک کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل جہاز پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہی۔

پومپیو کا طیارہ بدھ کی صبح اسلام آباد پہنچا۔ واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا پہلا پڑاؤ پاکستان ہے جس کے بعد وہ بدھ کی شام ہی پڑوسی ملک انڈیا روانہ ہو جائیں گے۔

امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ’ہمارا پہلا پڑاؤ پاکستان ہے جہاں ایک نیا حکمران ہے۔ میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ازسرِ نو بحال کرنے کی کوشش کے سلسلے میں ان کی حکومت کے آغاز میں ہی وہاں جانا چاہتا تھا۔‘

وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں نئے وزیراعظم عمران خان سے ان کے دورِ اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ملاقات کرنا بہت اہم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں اور چیئرمین ڈنفورڈ ایک ساتھ وہاں جا رہے ہیں تاکہ مذاکرات کریں۔ ہم جنرل باجوہ سے بھی ملاقات کریں گے اور ہم دونوں ان کو جانتے ہیں اور ان سے میں کئی بار مل چکا ہوں۔ ان کے علاوہ میں اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے بھی ملوں گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے طور پر ہم نے پاکستانیوں کے ساتھ قریب سے کام کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یقیناً بہت سے چیلنجز ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ نئی قیادت کے ساتھ ہم مشترکہ مسائل پر مل بیٹھ کر کام کرنے کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کر لیں گے۔‘

تاہم اس حوالے سے سابق سی آئی اے ڈائریکٹر اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں یہ پاکستانیوں کے لیے نئی خبر نہیں تھی، اس پر گذشتہ دنوں کئی سرخیاں بنیں لیکن اس بارے میں انھیں بہت پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر انھیں امداد نہیں ملے گی، اور امداد نہ ملنے کی وجہ بہت واضح ہے۔‘

’اس دورہ کا ایک مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہماری توقعات کیا ہیں، وہ چیزیں جو وہ کر سکتے ہیں، وہ چیزیں جو کرنے کی وہ ہم سے توقع کرتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ کیسے نہیں ملتا۔‘

امریکی وزیر خارجہ نے اسی بارے میں مزید کہا: ’میرے خیال میں یہ ایک نئی حکومت ہے، یہ سب کچھ وزیراعظم کے اقتدار میں ہونے سے بہت پہلے ہوا، اور مجھے امید ہے کہ ہم یہ صفحہ پلٹ کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘