مولانا سمیع الحق راولپنڈی میں قتل
مولانا سمیع الحق کو ’طالبان کا باپ‘ کہا جاتا تھا کیونکہ ان کے مدرسے میں بہت سے طالبان نے تعلیم حاصل کی تھی
پاکستان میں اکوڑہ خٹک مدرسے کے سرپرستِ اعلیٰ اور جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں ان کے گھر میں نامعلوم شخص نے چھریوں کے وار کر کے ہلاک کر دیا ہے۔
راولپنڈی پولیس نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا ہے کہ سمیع الحق راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں سفاری ون ولاز میں رہائش پذیر تھے۔
مولانا سمیع الحق کے پوتے عبدالحق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ راولپنڈی میں اپنے مکان میں اکیلے تھے جب نامعلوم شخص نے ان کو چھریوں سے وار کر کے ہلاک کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا کہ 'وہ اکیلے تھے اور ان کے محافظ اور ڈرائیور مکان سے باہر گئے ہوئے تھے اور جب وہ واپس آئے تو مولانا سمیع الحق خون میں لت پت تھے'۔
نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے گن مین اور ڈرائیور کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ دونوں کسی کام سے باہر گئے تھے اور ’عمومی طور پر اکٹھے باہر نہیں جاتے‘۔
پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ محافظ اور ڈرائیور کے باہر جانے کے بعد حملہ آور دیوار پھلاند کر مکان میں داخل ہوا اور پہلے چھری کے وار کیے اور بعد میں گولی ماری۔
اہلکار نے مزید بتایا کہ مولانا سمیع الحق کو پہلے بھی دھمکیاں ملتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں ان کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کا کہا گیا تھا۔
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ انھوں نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں۔ انھوں نے کہا کہ 'ہم صورتحال پر جلد قابو پالیں گے۔'
مولانا سمیع الحق کی لاش کو راولپنڈی ڈی ایچ کیو منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ بحریہ ٹاؤن میں واقع سفاری ہسپتال کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی ہے۔
مولانا سمیع الحق کون تھے؟
مولانا سمیع الحق کی عمر 80 برس سے زیادہ تھی اور وہ 1988 سے دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ تھے جہاں سے ہزاروں طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔
وہ مذہبی رہنما مولانا عبدالحق کے صاحبزادے تھے جنھوں نے نوشہرہ کے قریب اکوڑہ خٹک کے مقام پر دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کا مدرسہ حقانیہ دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتہ فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانہ جاتا ہے۔
دارالعلوم حقانیہ کو 1990 کی دہائی میں افغان جہاد کی نرسری تصور کیا جاتا تھا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی مولانا سمیع الحق کے ساتھ روحانی وابستگی ہے۔
ماضی میں ایک بار مولانا سمیع الحق نے مُلا عمر کو اپنے بہترین طالبعلموں میں سے ایک قرار دیا تھا اور انہیں ایک 'فرشتہ نما انسان' کہا تھا۔
وہ جمیعت علما اسلام کے ایک دھڑے کے سربراہ تھے اور دو مرتبہ پاکستان کے ایوانِ بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔