قومی اسمبلی اور سینیٹ میں گرما گرمی: شہباز شریف پی اے سی کے سربراہ
- شہزاد ملک
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
قومی اسمبلی (فائل فوٹو)
جمعے کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو حزب مخالف کی جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز کافی متحرک تھی۔
ایک وجہ تو یہ تھی کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہونے والے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ اس جماعت کے اہم رہنما خواجہ سعد رفیق جو قومی احتساب بیورو کی تحویل میں ہیں، پہلی بار قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو رہے تھے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین بھی پیچھے نہیں تھے کیونکہ شہر اقتدار میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری اور اُن کی بہن فریال تالپور کو آج جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے میں کراچی سے گرفتار کرلیا جائے گا۔
پاکستانی سیاست کے حالیہ منظرنامے کے لیے مزید پڑھیے
اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان اور حکمراں جماعت کے دیگر اہم وزار اجلاس سے غیر حاضر تھے۔
عمران خان تو ویسے بھی آج کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے حالانکہ اُنھوں نے خود اعلان کر رکھا تھا کہ وہ حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیں گے۔
پارلیمان میں آنے والے خواجہ سعد رفیق نے اپنی اسیری کے بارے میں ایوان کو آگاہ کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ معاملہ اب یہاں پر نہیں رکے گا بلکہ سکور برابر کرنے کے لیے حکمراں جماعت کے کچھ ارکان کو گرفتار کیا جائے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے حکومت کو نہیں بلکہ ان طاقتوں کو جو ان کے بقول موجودہ حکومت کو لیکر آئی ہے، کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ کھیل بند کریں اور صرف ان کی اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی گرفتاری پر ہی اکتفا کریں۔
تقریر کے دوران اُنھوں نے کہا کہ عام انتخابات میں میاں شہباز شریف کو فیصل واوڈا نے کراچی کی نشست سے، اور عمران خان کے مقابلے میں سعد رفیق کو لاہور کی نشست سے اور پھر حال ہی میں صوبائی اسمبلی پر ہونے والے انتخاب میں نواز لیگ کو 600 ووٹوں سے ہرایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 'چھ سو کا ہندسہ کسی کو پسند ہے۔'
قومی احتساب بیورو کے موجودہ قوانین کو بھی حزب مخالف کی جماعتوں نے کالا قانون قرار دیا جبکہ پہلے یہی قانون حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتیں، جن میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں، اسی قانون کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔
ایوان کی کارروائی معمول کے مطابق جاری تھی جب وفاقی وزیر مراد سعید کی انٹری ہوئی اور اُنھوں نے نیب کے قانون کو تنقید کا نشانہ بنانے پر حزب مخالف کوآڑے ہاتھ لیا۔
اُنھوں نے حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں 'جسٹس' نہیں جسٹس قیوم چاہیے۔ مراد سعید کی یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ دونوں جانب سے ایوان میں شور شرابہ شروع ہوگیا اور آخر میں حزب مخالف کی جماعتیں وفاقی وزیر کے رویے کے خلاف ایوان کا بائیکاٹ کرکے چلی گئیں۔
'شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ منتخب'
حکومت کی طرف سے گھٹنے ٹیکنے کے بعد میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کرلیا گیا ہے اور قانونی ماہرین کے مطابق اب ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنا پروڈکشن آرڈر خود بھی جاری کرسکتے ہیں۔
اس سے پہلے ماضی میں پی اے سی کے چیئرمین اس کمیٹی کے کسی بھی اسیر رکن کو اجلاس میں شریک ہونے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے رہے ہیں۔
'خارجہ پالیسی کو راولپنڈی سے اسلام آباد منتقل کیا جائے '
پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں حکومت کی خارجہ پارلیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن اس ایوان میں حکومت کو ٹارگٹ کرنے کی ذمہ داری پاکستان پیپلز پارٹی کی تھی۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین میاں رضا ربانی نے صدر مملکت کی پارلیمنٹ سے تقریر پر بحث کے دوران کہا کہ اُنھیں معلوم ہے کہ خارجہ پالیسی کہاں پر بن رہی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ 'خارجہ پالیسی کو راولپنڈی (جی ایچ کیو) سے اسلام آباد (پارلیمنٹ ہاوس ) منتقل کیا جائے۔'
رضا ربانی کے بقول ریاست کے تینوں ستونوں میں اہم آہنگی اور توازن کا فقدان ہے اور ہر ادارہ دوسرے ادارے کی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ریاست نے بنیادی حقوق کو نجی معاملہ بنا دیا ہے۔'لوگوں کا لاپتہ ہونا اب معمول بن گیا ہے اور اگر کوئی صحافی پسند نہیں ہے تو اسے قتل کردیا جاتا ہے۔'
میاں رضا ربانی نے کسی بھی ادارے کا نام لیے بغیر کہا کہ ملک میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اُنھوں نے کہا کہ قومی سلامتی کونسل کی تشکیل فی الفور کی جائے۔
رضا ربانی نے مطالبہ کیا کہ ایک قومی احتساب کمیشن تشکیل دیا جائے جو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کا بھی احتساب کرے
رضا ربانی نے مطالبہ کیا کہ ایک قومی احتساب کمیشن تشکیل دیا جائے جو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کا بھی احتساب کرے۔
'احتساب صرف مالی بدعنوانی کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ جن افراد کے اختیارات سے تجاوز کیا ہے یا طاقت کا غلط استعمال کیا ہے ان کا بھی احتساب کیا جائے۔'
حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان کی گرفتاری پر حکومت اور نیب میں گٹھ جوڑ کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
حکومت سینیٹ میں بھی بیک فٹ پر نظر آئی اور کوئی بھی رکن اپوزیشن کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالوں کے جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔