جانوروں کے حقوق: آوارہ کتوں کی نسل کشی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست کیوں داخل کروائی گئی؟
- سحر بلوچ
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
فریال اور ڈاکٹر فیصل اسلام آباد کے آوارہ جانوروں کی طبی امداد اور دیکھ بھال کرتے ہیں
’ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے ایک بار انسانی حقوق پر کام کرنے والے ایک وکیل کے بارے میں طنزیہ کہا تھا ’یہ ہر دفعہ غیر سنجیدہ کیسز لے آتے ہیں جن کی عدالتوں میں کوئی جگہ نہیں۔‘ اب آپ خود ہی سوچیں، جب ہم جانوروں کے حقوق کے بارے میں بات کریں تو ہمیں کیا کیا نہیں سننے کو ملتا ہوگا؟‘
سارہ سیرت ایک وکیل ہیں جنھوں نے حال ہی میں دارالحکومت کے میونسپل ادارے کی طرف سے آوارہ کتوں کو مارنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن جمع کروائی ہے۔ ہیلپ ویلفئیر آرگنائزیشن نامی ایک فلاحی ادارے کی جانب سے داخل کی گئی اس درخواست کے مطابق جانوروں کو زہر دے کر یا شاٹ گن سے مارنا غیر آئینی اور غیر اسلامی ہے۔
سارہ نے بتایا: ’جب ہم کیس کی سماعت کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو ایک جج نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بنا؟ دراصل ان کے اپنے کتے کو کچھ دن پہلے ہی گلے میں پٹا نہ ہونے کی وجہ سے سی ڈی اے کی ٹیم نے گولی مار دی تھی۔‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے قانون میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی حقوق ہیں، لیکن کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے قوانین میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کتوں کو شاٹ گن سے مارنے کی اجازت ہے اور اسلام آباد کے بائے لاز بھی کتوں کو مارنے کی اجازت دیتے ہیں۔
کیا گولی مارنا ہی واحد حل ہے؟
سارہ اور دیگر سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ آوارہ جانوروں کے خلاف اس قسم کی مہمات اکثر چلائی جاتی ہیں لیکن یہ وہ خبریں ہیں جو میڈیا پر کبھی نشر نہیں ہوتیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں اب تک 1860 میں انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ہی رائج ہے۔ "لیکن پڑوسی ملک انڈیا نے ناصرف اس قانون میں ترمیم کی بلکہ 2001 میں ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کے تحت کتوں کی زمرہ بندی کر کے ان کو ٹیکے لگوانے کا کام بھی کیا۔ ساتھ ہی جانوروں کی صحت کے لیے حکومتی سطح پر کلینک بھی قائم کیے گئے جہاں ان کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ترکی میں بھی گلیوں میں گھومنے والے کتوں سے لیکر پالتو جانوروں کی درجہ بندی اور دیکھ بھال کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ عام آدمی کے انھیں خطرناک تصوّر نہ کریں۔
آوارہ کتوں اور دیگر جانوروں کے خلاف مہم چلانا میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے صحت و صفائی کے محکمے کے ذمے آتا ہے۔
سارہ کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ اسے ایک صفائی کا مسئلہ سمجھتی ہے اور ’جانوروں کی بہبود سے تو ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ہمارا مقصد صرف قانون کو نہیں، سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہے۔‘
کارکن کے کتے کو مارنے کی دھمکی
فریال نواز، جن کی طرف سے ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروائی گئی ہے، کو بچپن سے ہی جانوروں سے پیار تھا لیکن انھیں گھر لانے کی اجازت نہ تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ کام اچھا لگتا ہے ’کیونکہ مجھے ناصرف جانوروں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملتا ہے، بلکہ ان کی فلاح کے لیے کام کرنے کا بھی موقع ملتا ہے۔‘
فریال نے بتایا کہ انھوں نے ہیلپ ویلفئیر آرگنائزیشن کی بنیاد اسی مقصد سے رکھی اور آج تک ان کا ادارہ عطیات پر چل رہا ہے۔ ’ہم سے وہ لوگ رابطہ کرتے ہیں جو جانوروں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔‘
عدالت میں درخواست دائر کرنے کی ضرورت انھیں تب پیش آئی جب سی ڈی اے کے عملے نے ان کے ایک کارکن کے گھر میں موجود کتوں کو مارنے کی دھمکی دی۔
’یہ ہمارے قانون کا حصہ ہے‘
لیکن میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے ڈائریکٹر سینیٹیشن سردار خان زمری کے مطابق ان کے محکمے کو آوارہ کتوں کے خلاف ہر ماہ تقریباً 150 شکایتیں موصول ہوتی ہیں جن پر عمل کرنا ان کی مجبوری ہے۔
انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر شکایات بارہ کہو، لہتراڑ، جی 12، اور گولڑہ شریف کے علاقوں سے آتی ہیں۔
اس وقت جانوروں سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں میٹروپولیٹن کارپوریشن کی دو ٹیمیں کام کررہی ہیں، جو کہ پانچ پانچ افراد پر مشتمل ہیں۔
’یہ ہمارے قانون کا حصہ ہے، لیکن ہمارے بارے میں ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے ہم یہ کام خوشی خوشی کرتے ہیں۔ جب لوگ شکایت کرتے ہیں تو وہ صبر نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ کاروائی اسی وقت ہو۔‘
سردار خان زمری نے کہا کہ اگر کوئی فلاحی ادارہ ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہو تو وہ اس کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔ ’لیکن ان چیزوں میں وقت لگتا ہے۔ جب تک ایسا قانون نہیں بنتا، تب تک ہم کاروائی کرنے پر مجبور ہیں۔‘
’مارنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا‘
لیکن فریال کہتی ہیں کہ جانور کو مارنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ’اگر کوئی جانور بیمار ہے اور آپ نے اسے مار کر لاش کو صحیح طرح دفن نہیں کیا تو اس کے جراثیم پھیل سکتے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو انتطامیہ نہیں سمجھتی۔‘
فریال نے بتایا کہ اکثر لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں جہاں اتنے انسان مشکل میں ہیں، وہ جانوروں کے لیے ہی کیوں کام کررہی ہیں؟
’انسانوں کے لیے بہت ادارے کام کررہے ہیں اور انسان اپنی بات اور اپنا درد بیان کرسکتے ہیں۔ لیکن جانور نہیں کرسکتے، اور ان کے لیے کوئی کچھ نہیں کرتا۔ ایک بے زبان کی فلاح کے لیے کام کرنا ویسے ہی جزائے خیر ہے۔‘