چیف جسٹس ثاقب نثار کا ملک ریاض سے مکالمہ: ’ہر برے کام میں آپ کا نام کیوں آتا ہے؟‘
- شہزاد ملک
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین
سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس سے متعلق از خود نوٹس کی پیر کی صبح سماعت کے موقعے پر پاکستان کے چیف جسٹس کی عدالت، کمرہ نمبر ایک کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی لوگوں سے کھچا کھچ بھر چکی تھی۔
تقریباً سو سے زیادہ لوگوں کی گنجائش والے اس کمرے میں سائلین نہ ہونے کے برابر تھے لیکن اُن افراد کی تعداد کہیں زیادہ تھی جو جعلی بینک اکاؤنٹس سے اربوں روپے بیرون ملک بیجھے جانے کے مقدمے کی سماعت کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔
زیادہ تر لوگ اس امید پر آئے تھے کہ شاید سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری بھی عدالت میں پیش ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
البتہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض عدالت میں ضرور پیش ہوئے کیونکہ عدالت نے اُنھیں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا۔
جعلی اکاؤنٹ کیس کے بارے میں مزید پڑھیے
کمرہ عدالت پہنچنے سے پہلے صحافیوں نے بحریہ ٹاون کے مالک سے سوالات کرنے کی کوشش کی تو وہ ہر سوال کے جواب میں نوکمنٹس کہہ کر جان چھڑاتے تھے۔
کمرہ عدالت میں بھی وہ آخری نشتسوں پر بیٹھے ہوئے تھے تاکہ چیف جسٹس کی نظر نہ پڑے لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور سماعت شروع ہونے کے کچھ دیر کے بعد ہی چیف جسٹس نے اُنھیں روسٹرم پر آنے کا حکم دیا۔
ان کی آمد سے قبل ہی روسٹرم پر ملک ریاض کے وکلا کی ایک فوج پہلے سے ہی روسٹرم کے اردگر مورچہ زن تھی۔
روسٹرم پر آنے سے پہلے ملک ریاض اپنے وکلا کو جو بھی ہدایت دیتے تھے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی رمیش لال کے ذریعے دی جاتی تھی۔
رمیش لال اس وقت تک کمرہ عدالت میں موجود تھے جب تک ملک ریاض کمرہ عدالت سے چلے نہیں گئے۔
ملک ریاض جب روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے اُنھیں مخاطب کرتے پوچھا کہ 'ہر برے کام میں آپ کا نام کیوں آتا ہے'۔
اس پر بحریہ ٹاؤن کے مالک نے کہا کہ اُنھوں نے اچھے کام بھی کیے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات ہے تو بتائی جائے اور وہ تمام معاملات کو حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کے مالک نے کہا کہ اُنھوں نے اچھے کام بھی کیے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات ہے تو بتائی جائے اور وہ تمام معاملات کو حل کرنے کے لیے تیار ہیں
چیف جسٹس نے ملک ریاض کو کہا کہ وہ پہلے بھی اُنھیں یہ پیشکش کرچکے ہیں کہ ایک ہزار ارب روپے ادا کر کے تمام مقدمات سے اپنی جان چھڑا لیں تاہم بحریہ ٹاون کے سربراہ نے اس پر مسکراتے ہوئےخاموشی اختیار کی۔
چیف جسٹس نے دیامیر بھاشا ڈیم کا ذکر کیے بغیر کہا کہ چلیں ملک صاحب، آپ پانچ سو ارب دے دیں تو وہ خود عملدرآمد والے بینچ میں بیٹھ کر ان کے خلاف تمام مقدمات کو ختم کردیں گے۔
ملک ریاض اس پر بھی مسکرا دیے تو بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ 'ملک صاحب، وہ دور گئے جب آپ حکومتیں بنواتے اور توڑ واتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہوگا'۔
اس پر ملک ریاض نے برملا جواب دیا کہ 'اللہ کی قسم میں ملک نہیں چلاتا۔'
عدالت نے بحریہ ٹاون کے مالک سے کہا کہ وہ سنہ 1980 میں اپنی مالی پوزیشن دیکھیں اور آج کی مالی پوزیشن دیکھیں تو سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اب نیب ملک ریاض کا معاملے کو دیکھے گی۔
عدالتی کارروائی کے دوران کیا ہوا؟
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کو جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعلی سندھ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے داخلہ امور کے وزیر مملکت شہر یار آفریدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'جائیں اور اپنے بڑوں کو بتائیں کہ ملک ان کی مرضی سے نہیں بلکہ قانون کے مطابق چلے گا۔'
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیر کو جعلی اکاؤنٹس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ وفاقی کابینہ کیسے صرف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل پر ڈال سکتی ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہ تو اس طرح کے احکامات کا حکم عدلیہ نے دیا تھا نہ ہی قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ایسی کوئی بات کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وفاقی کابینہ نے حقائق تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وفاقی کابینہ وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت اُن صوبوں کے وزرا اعلیٰ کا نام ای سی ایل میں شامل کرتی جہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مراد علی شاہ سندھ کے پورے صوبے کے سربراہ ہیں، وہ کیسے اپنے عہدے کو چھوڑ کر بیرون ملک جا سکتے ہیں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعلیٰ سندھ کو وزیر اعظم کے ساتھ ترکی جانا پڑے تو پھر کیا ہوگا؟
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ اس طرح کے اقدامات بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس سے قبل سماعت کے دوران جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں مراد علی شاہ کا نام آنے پر صوبہ سندھ میں گورنر راج کا معاملہ بھی آیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے گورنر راج لگایا تو ایک منٹ میں اڑا دیا جائے گا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے لکھا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر کنکشن کی فراہمی سے بددلی پیدا ہوتی ہے اور یہ قومی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہے
اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جمہوریت کو اس وقت ڈی ریل نہیں ہونے دیا جب ملک میں ڈکٹیٹر شپ آنے کے خطرات تھے۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہا کہ 'مائی لارڈ یہ صرف اخباری خبریں ہیں اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔'
جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے کسی شخص کا عہدہ دیکھ کر نہیں، بلکہ اس کا کردار دیکھ کر اس کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کی۔
بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں لوگوں کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا اختیار کس نے دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو تفتیش کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، لوگوں کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔
اُنھوں نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے استفسار کیا کہ کیا عدالت نے اُنھیں ان افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا کہا تھا تاہم احسان صادق نے اس کا جواب نفی میں دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا نام کیوں لیا گیا۔
سماعت کے اختتام پر عدالت نے حکومت اور حزب مخالف کو جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں میڈیا پر آکر رائے زنی کرنے سے روک دیا ہے۔
جعلی اکاؤنٹ کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد ای سی ایل میں آصف زرداری، بلاول بھٹو، مراد علی شاہ اور ملک ریاض سمیت 172 افراد کا نام ڈالا گیا ہے
ادھر اٹارنی جنرل منصور انور نے عدالت کو بتایا کہ احسان صادق کی طرف سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط پر غور کرنے کے بعد ان افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
جے آئی ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسے افراد جن کے خلاف مقدمات درج ہوں یا زیر تفتیش ہوں تو وہ بیرون ممالک فرار ہو جاتے ہیں اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے ان افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق کہا گیا تھا۔
سابق وفاقی وزیر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے اور کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش میں ان کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کا کہا ہے اس لیے وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی وکالت نہیں کرسکتے۔
اس پر بینچ کے سربراہ نے ان کی استدعا مسترد کردی اور کہا کہ اُنھیں عدالت میں پیش ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اٹارنی جنرل انور منصور کا عدالت میں کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں ان کے اپنے بھائی کا بھی نام آیا ہے جسے اومنی گروپ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔
جے آئی ٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بھی کہا کہ اس کیس میں زیادہ تر افراد با اثر ہیں اس لیے انھوں خطرہ تھا کہ وہ بیرون ملک فرار نہ ہو جائیں، اس لیے ان افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی گئی تھی تاہم ان اقدامات کو پورا کرنا حکومت کی ذمے داری تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں 16 ریفرنسز دائر کرنے کی سفارش کی گئی ہے جب کہ نو مقدمات ایسے ہیں جن میں مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔