مادری زبانوں کا عالمی دن: کیا ماں بولی کے لیے بھی چیخنا پڑے گا؟

  • عارف شمیم
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
مختلف زبانوں میں ویلینٹائن ڈے کا پیغام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آج مادری زبانوں کا عالمی دن ہے جسے انگریزی میں ’مدر لینگویج ڈے‘ کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس لیے لکھا کہ یہ شاید دنیا کہ ہر ملک میں تھوڑی بہت بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ کون سی زبان بولی جاتی ہے یہ ایک الگ بات ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی چین کی زبان مندرین ہے جسے تقریباً ایک ارب لوگ بولتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا نمبر ہسپانوی کا آتا ہے جسے تقریباً 400 ملین لوگ بولتے ہیں اور تیسرا نمبر انگریزی کا ہے جسے بولنے والوں کی تعداد 335 ملین کے نزدیک ہے۔

یہ اعداد و شمار ان افراد کے ہیں جن کی یہ زبانیں مادری زبانیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے

،ویڈیو کیپشن

ہزارگی

،ویڈیو کیپشن

’نئی نسل گجراتی سے دور ہو گئی ہے‘

آخری مادری زبان کیا ہے؟ اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ میں نے یہی سوال چالیس سال تک انگریزی زبان پڑھانے والے اور اب پنجاب میں پنجابی کو بطور مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کے لیے کوشاں زبیر احمد سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی طور یہ ایک اصول بن گیا ہے کہ بچے کی تعلیم اس زبان میں ہی ہونی چاہیئے جو اس کے ماں باپ گھر پر بولتے ہیں۔ مثلاً میں پنجابی کی ہی ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک گاؤں کا بچہ گھر میں ککڑی سیکھتا ہے لیکن جب وہ سکول جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ مرغی ہے۔ انگریزی میں اسے چکن کہتے ہیں۔ اتنے زیادہ الفاظ ہوتے ہیں کہ وہ کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے اور پڑھ نہیں پاتا۔ کیونکہ پنجابی اسے آتی ہے اس لیے اگر اس کو پنجابی میں ہی پڑھایا جائے تو کم از کم خواندگی کا مسئلہ تو حل ہو سکتا ہے۔‘

اور اس سوال پر کہ اسے مادری زبان کیوں کہتے ہیں زبیر احمد کا کہنا تھا: ’کیونکہ یہ ماں کی زبان ہے، اس زبان میں ماں بچے کو لوریاں دیتی ہے، جو شروع کے چار پانچ وہ ماں کے ساتھ وہ زبان بولتے اور سنتے ہوئے گزارتا ہے اس لیے اس کی بہترین اور فرسٹ لینگویج وہی بنتی ہے اور شاید یہ ہی بنیاد ہے اسے مادری زبان کہنے کی۔ اس سے ہی ’مدر لینڈ‘ یا دھرتی بھی بنا ہے۔‘

زبیر احمد زبانوں خصوصاً پنجابی کے لیے کیے جانے والے حکومتی سطح پر اقدامات سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہمارے حکمرانوں کے لیے ایجوکیشن ہی اہم نہیں ہے تو وہ زبانوں کو کیا اہمیت دیں گے۔‘

تاہم مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر لاہور ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ وہ پانچویں جماعت تک پنجابی زبان کو لازمی قرار دینے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

اس موقع پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں اور ادبی تنظیموں نے بھی اس مطالبے کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے کہ اردو کی طرح دیگر زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔

کوئٹہ پریس کلب میں ایک تقریب کے موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرے کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو اپنے مادری زبان میں تعلیم کا حق حاصل ہونا چائیے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق اقلیتوں کی شناخت قائم رکھنے کے لیے ان کی زبانیں قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے ادارے یونیسکو نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’جب کوئی زبان غائب ہو جاتی ہے تو اپنے ساتھ پوری ثقافت اور انٹیلیکچول وراثت بھی لے جاتی ہے۔ مدر لینگویج ڈے پر ہمیں اکٹھے ہو کر مقامی زبانوں کو محفوظ بنانے کا عزم کرنا چاہیئے۔‘

پنجابی زبان کی تحریک میں پیش پیش صحافی اور مصنفہ عمارہ احمد بھی کچھ اس طرح سوچتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب گھروں میں اکثر پنجابی سنائی بھی نہیں دیتی۔ بچے اردو یا انگریزی میں بات کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ’ایک طرح کا ریسیشن یا خلا آ گیا ہے اور یہ امپیریل ازم (سامراجیت) اور کولونیل ازم (استعماریت) کی نشانی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کسی نے ٹھیک کا تھا کہ ’پنجاب میں آپ جب پہلی مرتبہ بچے کو سکول بھیجتے ہیں تو اس پر دو ظلم کرتے ہیں۔ ایک تو اس سے پہلے ماں کی گود چھین لیتے ہیں اور دوسرا اس سے ماں بولی بھی لے لیتے ہیں۔‘

،ویڈیو کیپشن

افغان پناہ گزینوں کے بچے مادری زبان سے محروم کیوں؟

مزید پڑھیئے

انھوں نے اپنے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے سابق وزیر عمران مسعود کا انٹرویو کیا تھا۔ عمارہ کے مطابق سابق وزیر نے انھیں کہا تھا کہ ’بچے پنجابی تو گھر سے ہی سیکھ لیتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ سکول میں انھیں اردو سکھائی جائے۔‘

ٹوئٹر پر بہت سے لوگوں نے مادری زبان کے حوالے سے ٹویٹ کیا۔ ایک صارف نے تو اپنے ٹویٹ میں یہ بھی دکھایا کہ ایک عام سی بلی کتنی زبانوں میں میاؤں کہتی ہے۔

نوبیل انعام دینے والے ادارے نے بھی مادری زبان کے حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ادب کا نوبیل انعام اب تک 25 ایسے افراد کو دیا جا چکا ہے جنھوں نے تخلیقی کام اپنی مادری زبانوں میں کیا۔ ان میں بنگالی، ہنگیرین، اور ترک زبان بھی شامل ہے۔

حکومتِ پاکستان نے بھی 21 فروری کے حوالے سے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’ہماری مادری زبان کے پاس ہزاروں سال کی تہذیب، ہماری شناخت، روحانیت اور اقدار کا نظام ہے جس برادری میں ہم رہتے ہیں۔‘

تاہم پروفیسر زبیر احمد کے مطابق سب کوششیں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ہمیں پنجاب اسمبلی میں پنجابی میں بات کرنے کے لیے اسمبلی کے سپیکر سے اجازت لینی پڑتی ہے اور ایسا کسی اور صوبے میں نہیں ہوتا۔

اسے قول اور فعل میں تضاد نہیں کہا جا سکتا۔ مادری زبان میں بات کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس میں کیا شرمندگی ہے؟ اگر مادری زبان نہیں بولیں گے تو یہ آہستہ آہستہ مر جائے گی اور اس کے ساتھ ہزاروں سال کی ثقافت بھی۔ اس کا آسان حل ملک میں زیادہ قومیں زبانیں تسلیم کرنا ہے۔ انڈیا میں 21 قومی زبانیں ہیں جبکہ سوئٹزرلینڈ میں چار۔ تو کیا پاکستان میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں بنانا کوئی بڑا مسئلہ ہے؟