بریگیڈیئر اعجاز شاہ: ’میں بطور وزیر داخلہ فوج کو کیا طاقت دے سکتا ہوں؟‘
- سعد سہیل
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان میں وزارتوں کی حالیہ رد و بدل کا شور و غُل ابھی تھما نہیں اور حزب اختلاف کی جانب سے وزیر داخلہ کی تعیناتی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔
وہ کیا خصوصیات ہیں جو انھیں اس عہدے کے لیے موزوں بناتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نئے وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے بی بی سی سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’یہ سوال جا کر عمران خان سے پوچھیں۔‘
بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ سے منسوب ایک بیان چند روز قبل مقامی میڈیا کی زینت بنا رہا جس میں حکومت مخالف مظاہرین کی ’چھترول‘ کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا ’اس بیان سے اس شخص کا ذہن واضح ہوتا ہے جو ماضی میں ایک سرکاری غنڈے کے طور پر کام کرتا رہا ہو اور پرویز مشرف کے ساتھ مل کر سرکاری مشینری کا استعمال کرتا رہا ہو اس سے اچھے کی ہمیں کوئی امید نہیں۔‘
اسی بیان پر وضاحت دیتے ہوئے خود اعجاز شاہ کا کہنا تھا ’بہت افسوس کی بات ہے کہ میڈیا نے ایک غیر رسمی گفتگو کو اُچھالا جو میں نے اس وقت کی جب میں وزیر داخلہ بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنے لوگوں میں یہ بات کی جہاں میں ایک وزیر کی حیثیت سے نہیں بیٹھا تھا مگر آدھے پاکستان کو تو ’چھترول‘ کا پتہ بھی نہیں کہ چھترول ہوتی کیا ہے؟ اور ظاہر ہے کہ اگر محاذ آرائی عوام کو متاثر کرے گی تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کی عملداری قائم کی جائے۔`
یہ بھی پڑھیے
پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کا ان تبدیلیوں کے حوالے سے کہنا ہے ’کابینہ میں اس ردوبدل نے عمران خان کے نئے پاکستان کے کھوکھلے وعدوں کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ اب تو یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ قوم سے کیے گئے وعدوں کے لیے نہ ہی ان کا کوئی ٹھوس منصوبہ تھا اور نہ ہی انھوں نے ایک قابل ٹیم کا انتخاب کیا۔‘
بے نظیر بھٹو نے اپنی موت سے قبل اعجاز شاہ کو ان لوگوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جن پر انھیں شک تھا کہ وہ انھیں قتل کرنا چاہتے ہیں
ماضی کے تنازعات، حزب اختلاف کے اعتراضات
احسن اقبال کا اعجاز شاہ کی تعیناتی کے معاملے پر کہنا تھا ’اس شخص نے ماضی میں پرویز مشرف کی ٹیم کا کلیدی حصہ بن کر ’پولیٹیکل انجینئرنگ‘ کی اور لگتا یہ ہے کہ اب اس پارلیمان میں بھی پولیٹیکل انجینئرنگ کی ضرورت ہے جس کے باعث انھیں تعینات کیا گیا ہے۔‘
صحافی اعزاز سید کی بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اعجاز شاہ کے ماضی میں انتہا پسندوں سے مبینہ روابط رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’نیشنل ایکشن پلان ایک سیاسی ذہن کی پیداوار ہے اور یہ شخص (بریگیڈیئر اعجاز شاہ) ایک آمرانہ سوچ کے مالک ہیں، ان کے آنے سے کبھی بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔‘
تاہم اعجاز شاہ نے اس خدشے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کی تنقید بے بنیاد ہے اور اب نیشنل ایکشن پلان پر پہلے سے بھی بہتر انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا۔
قمر زمان کائرہ کے مطابق ’جو شخص ایک ایجنسی کا سربراہ رہا اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کراتا رہا، جو پرویز مشرف کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتا رہا ہے، اسے شخص سے کسی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی اور ہم اس فیصلے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔‘
کیا اس منصب کے لیے اعجاز شاہ موزوں ثابت ہوں گے؟
نجی ٹی وی چینل ’جیو‘ کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد کا کہنا تھا ’وہ بے شک قابل ہوں گے لیکن وزیرداخلہ کے لیے صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تجربہ درکار نہیں ہوتا بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ ماحول میں کتنا استحکام لا سکتے ہیں اور تمام سٹیک ہولڈرز میں کتنا اعتماد بحال کرا سکتے ہیں۔‘
سابق وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر نے حالیہ وزیر اعظم سمیت ماضی کے وزرائے اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’متعدد قلمدان رکھ لیتے ہیں اور پھر اس پر توجہ نہیں دے پاتے اور یہ ایک اچھا عمل نہیں ہے۔‘
صحافی رانا جواد نے اعجاز شاہ سے متعلق چند متنازع واقعات جن میں ان کے مبینہ انتہا پسندوں سے روابط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’یقیناً ان کا ایک متنازع ماضی رہا ہے اور ایک ایسے وقت میں ان کا وزیر داخلہ بن جانا جب ہمارا ملک ایف اے ٹی ایف کے خدشات دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بہت زیادہ کریک ڈاؤن کر رہا ہے، انتہا پسندوں کے خلاف اس تعیناتی پر ظاہر ہے سوالات اٹھیں گے۔‘
رانا جواد کے مطابق پاکستان کے موجودہ مسائل کی بنیادی وجہ ہماری داخلہ پالیسی رہی ہے۔
’وزیر اعظم کے پاس وزیر داخلہ کا قلمدان ہونا ایک غیر معمولی بات تھی اس لیے یہ بات تو خوش آئند ہے کہ انھوں نے یہ قلمدان کسی اور کو سونپ دیا مگر ان کا انتخاب یقیناً متنازع فیصلہ ہے چونکہ اس سے سیاسی ٹھہراؤ کے بجائے کشیدگی بڑھے گی۔‘
تاہم سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر کے خیال میں ’اعجاز شاہ کا تجربہ تو کافی ہے، پاکستان تحریک انصاف کا بڑا مسئلہ تجربہ کاری ہے اس لیے اگر اعجاز شاہ کو دیکھا جائے تو انھیں فوج کا تجربہ ہے، آئی بی کا تجربہ ہے حتیٰ کہ ہوم سیکریٹری کا تجربہ بھی ہے۔‘
اعجاز شاہ کے متنازع ہونے کے حوالے سے ان کی یہ رائے تھی کہ متنازع تو پاکستان میں ہر سیاست دان رہا ہے ’مگر ہمیں امید ہے کہ وہ ایسے اپنا کام سر انجام دے پائیں گے جس سے اگر ان سے متعلق کوئی تنازع ہے بھی تو وہ دب جائے گا۔‘
پیپلز پارٹی کی جانب سے کی گئی تنقید پر معین الدین حیدر کا کہنا تھا ’ان کے زمانے کے وزیر داخلہ نے بھی بہت سے ایسے کام کیے جو متنازع تھے۔‘
’میرے خیال میں فوجی پس منظر وزارت داخلہ کے عہدے کے لیے ضروری تو نہیں ہوتا اور کوئی بھی شخص اگر محنت کرے تو وہ مثبت نتائج دے سکتا ہے مگر اعجاز شاہ کو محتاط ہو کر اپنا کام کرنا چاہیے مگر مضبوطی سے۔‘
اعجاز شاہ کا موقف
بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے کی گئی تنقید پر کہا ’اس عہدے پر تعیناتی حکومت اور وزیر اعظم کا استحقاق ہوتا ہے اور حزب اختلاف کا تو کام ہی تنقید کرنا ہے اس کا تو میرے پاس کوئی توڑ نہیں مگر جب عوام میرا کام دیکھے گی تو سب سے بہترین منصف ثابت ہو گی، یہ تمام خدشات دور ہو جائیں گے اور سیاسی تناؤ کم ہو گا۔`
کیا وزیر اعظم کا وزارت داخلہ کا قلمدان منتقل کرنا خود ان کی ناکامی سمجھا جائے؟ اس پر اعجاز شاہ کا کہنا تھا ’پہلے تو یہ واضح ہو جائے کہ یہ کوئی نئی تعیناتی نہیں بلکہ صرف وزارت کی تبدیلی ہے اور اب دو لوگ تو اس وزارت کا قلمدان نہیں سنھبال سکتے۔‘
پولیٹیکل انجینئرنگ کی تنقید کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’میں بطور وزیر داخلہ فوج کو کیا طاقت دے سکتا ہوں؟ مجھے فوج کو چھوڑے عرصہ ہو چکا ہے، میں ایک سویلین ہوں اور دیگر انتخابات میں حصہ لے چکا ہوں۔‘
’ظاہر ہے کہ ماضی میں میری روزی روٹی فوج سے وابستہ تھی اور یہ ہمارے ملک کی ہی فوج ہے تو ان ناقدین کے حوالے سے میں مزید کیا کہوں جو ہر بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔‘