وادی نیلم میں ’فلیش فلڈ‘ کے بعد امدادی کارروائیاں جاری، 22 لاپتہ افراد میں سے کسی کی لاش نہ مل سکی

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی وادی نیلم میں ’کلاؤڈ برسٹ‘ یعنی بادل پھٹنے کے واقعے کے بعد آنے والے سیلابی ریلے کے نیتجے میں بہہ جانے والے 22 افراد کی تلاش کا عمل منگل کو بھی جاری ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔
صحافی اورنگزیب جرال کے مطابق 'کلاؤڈ برسٹ' کا یہ واقعہ وادی نیلم کے گاؤں لیسوا میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب پیش آیا تھا جس کے بعد پہاڑی نالے میں آنے والا سیلابی ریلا اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز بہا لے گیا تھا۔۔
متاثرہ علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے تقریباً 60 کلومیٹر جبکہ شاہراہ نیلم سے کئی گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق لیسوا نالے میں بہہ جانے والے کسی بھی فرد کی لاش نہیں مل سکی ہے۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
وادی نیلم میں بادل پھٹنے کے بعد کے مناظر
چترال میں سیلاب: ’علیمہ خان سمیت درجنوں پھنس گئے‘
وادی نیلم میں بادل پھٹنے کے بعد سیلابی صورتحال
ایس ڈی ایم اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید شاہد اکبر کے مطابق لیسوا میں آنے والے ’فلیش فلڈ‘ میں جو 22 افراد بہہ گئے تھے ان میں سے 11 کا تعلق تبلیغی جماعت سے بتایا جاتا ہے جو مقامی مسجد میں مقیم تھی۔ لاپتہ ہونے والے دیگر افراد میں سے نو مقامی ہیں جبکہ دو فرنیٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ملازم بتائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے فلیش فلڈ میں بہہ جانے والے تبلیغی جماعت کے ارکین کے لواحقین کو سرکاری مہمان قرار دیتے ہوئے انھیں تمام تر سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے.ان کے مطابق امدادی کارروائیوں میں سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ،پاکستانی فوج، ریسکیو ون ون ٹو ،محکمہ صحت، مقامی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کے افراد شامل ہیں.

ادھر حکام کے مطابق گذشتہ روز مظفرآباد اور اس کے نواح میں بھی پانچ افراد دریائے نیلم میں بہہ گئے۔
دریا میں بہہ جانے والوں میں سے تین افراد کی لاشیں نکال لی گی ہیں۔ حکام کے مطابق ان میں سے بیشتر افراد لیسوا نالے میں بہہ کر آنے والی لکڑیاں پکڑ رہے تھے۔ یہ لکڑیاں نیلم جہلم پن بجلی کے منصوبے کے لیے بنائے جانے والے نوسیری ڈیم میں جمع تھیں اور طغیانی کے باعث دریا میں بہہ گئی تھیں۔
سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلابی ریلے سے لگ بھگ 135 مکانات کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا ہے جن میں تین مساجد بھی شامل ہیں۔
حکام کے مطابق فلیش فلڈ سے چھ پن چکیاں بھی مکمل تباہ ہوئی ہیں جبکہ چھ گاڑیاں اور دس موٹر سائیکلیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں جن میں سے دو گاڑیاں علاقے میں آنے والے سیاحوں کی تھیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلے سے جورا بازار مکمل تباہ جبکہ بنیادی صحت کے دو مراکز بھی متاثر ہوئے ہیں۔
لیسوا گاوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شیخ عمر نے بتایا کہ جس علاقے میں سیلاب آیا وہاں چھ سے زیادہ گاؤں ہیں جن کی آبادی لگ بھگ 12 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
علاقے میں امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں اور ان میں حکام کے مطابق ایس ڈی ایم اے،پاکستانی فوج، مقامی انتظامیہ اور ریسکیو اور محکمۂ صحت کے اہلکاروں کے علاوہ مقامی افراد کی بڑی تعداد بھی شریک ہے جبکہ لاپتہ افراد کی تلاش بھی جاری ہے۔
سید شاہد اکبر کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے تاہم مواصلاتی نظام متاثر ہونے کے باعث مشکلات کا بھی سامنا ہے۔
’کلاؤڈ برسٹ‘ ہوتا کیا ہے؟
’کلاؤڈ برسٹ‘ یا بادل پھٹنے کا مطلب کسی مخصوص علاقے میں اچانک بہت کم وقت میں گرج چمک کے ساتھ بہت زیادہ اور موسلادھار بارش کا ہونا ہے جس کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہو جائے۔
بادل پھٹنے کا واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب زمین یا فضا میں موجود بادلوں کے نیچے سے گرم ہوا کی لہر اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور بادل میں موجود بارش کے قطروں کو ساتھ لے جاتی ہے۔
اس وجہ سے عام طریقے سے بارش نہیں ہوتی اور نتیجے میں بادلوں میں بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے نئے قطرے بنتے ہیں اور پرانے قطرے اپ ڈرافٹ کی وجہ سے واپس بادلوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔
اس کا نتیجہ طوفانی بارش کی شکل میں نکلتا ہے کیونکہ بادل اتنے پانی کا بوجھ سہار نہیں سکتا۔
کلاؤڈ برسٹ کے واقعات ماضی میں پاکستان اور انڈیا اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں جہاں کم اونچائی والے مون سون بادل اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اور برس پڑتے ہیں۔