اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہنگامہ آرائی پر 17 وکلا کو توہینِ عدالت کے نوٹس

  • شہزاد ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
اسلام آباد ہائی کورٹ

،تصویر کا ذریعہSocial Media

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر پر 'حملے' اور 'توڑ پھوڑ' کے واقعے کے بعد عدالت نے منگل کو 17 وکلا کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے جبکہ پولیس نے مقدمہ درج کر کے نامزد وکلا کی گرفتاری کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔

اسلام آباد میں سی ڈی اے کی جانب سے وکلا کے غیرقانونی چیمبر مسمار کیے جانے کے بعد وکلا کے ایک گروہ نے پیر کو عدالتِ عالیہ میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی تھی۔

اس واقعے کے بعد چیف جسٹس کے حکم پر منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور وفاقی دارالحکومت کی ماتحت عدالتیں بھی بند رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق پانچ خواتین سمیت ان 17 وکلا کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں جو آٹھ فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں پیش آنے والے واقعات میں ملوث تھے۔

اس سے قبل ترجمان کی جانب سے پیر کو بتایا گیا تھا کہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور پولیس نے نامزد وکلا کی تلاش میں چھاپے مارنے شروع کر دیے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کی طرف سے ضلعی عدالتوں میں سرکاری جگہ پر بنائے گئے وکلا چیمبرز کو گرانے کے واقعہ کے خلاف اسلام آباد کے وکلا کا ایک گروپ پیر کے روز احتجاج کر رہا تھا۔

مقامی پولیس کے مطابق تین سو کے لگ بھگ وکلا نے، جن میں خواتین وکلا بھی شامل تھیں، پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت کے باہر جمع ہو کر نعرے بازی کی اور اس کے بعد ان کی عدالت پر پتھراؤ شروع کر دیا۔

مقامی پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق اس صورتحال کو دیکھ کر چیف جسٹس اپنے چیمبر میں چلے گئے اور اسی دوران مشتعل وکلا ان کے چیمبر میں داخل ہو گئے اور انھیں مبینہ طور پر تین گھنٹے تک یرعمال بنائے رکھا۔

عینی شاہدین کے مطابق اس دوران وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر میں اس اقدام کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

اس موقع پر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی آئی جی آپریشنز بھی چیف جسٹس کے چیمبر میں پہنچ گئے لیکن ان کی یقین دہانیوں کے باوجود مشتعل وکلا ٹس سے مس نہ ہوئے۔

عینی شاہدین کے مطابق اس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے جب رینجرز کو طلب کیا تو وکلا چیف جسٹس کے چیمبر سے باہر نکل گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

،تصویر کا ذریعہSocial Media

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے تئیں وکلا سے درخواست کی تھی کہ وہ چیف جسٹس کے چیمبر سے نکل جائیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

وکلا کا موقف

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر حسیب چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے ضلعی عدالتوں میں قائم دو سو سے زائد وکلا چیمبر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرا دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے وکلا کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جس سے ایک درجن کے قریب وکلاء زخمی ہوئے۔

اُنھوں نے کہا کہ معاملہ تو صرف چار چیمبروں کا تھا جو کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت کے سامنے تھے لیکن ضلعی انتظامیہ نے ان دو سو چیمبروں کو بھی گرا دیا جو کہ گزشتہ پندرہ سال سے وہاں پر موجود تھے۔

حسیب چوہدری نے کہا کہ اگر کارروائی کرنی ہے تو پھر وکلا کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کریں جنھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

مقدمہ

ضلعی انتظامیہ کا موقف

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وکلا کے جن چیمبروں کو گرایا گیا ہے وہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق ان چیمبروں کو گرانے سے پہلے اسلام اباد بار کونسل سمیت دیگر وکلا تنظیموں کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔

اہلکار کے مطابق وزیراعظم کی واضح ہدایات کی روشنی میں اسلام آباد میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔