سردیوں میں کے ٹو پر مہم جوئی: علی سدپارہ اس مہم میں بطور کوہ پیما شامل تھے یا پورٹر بن کر گئے تھے؟

  • محمد زبیر خان
  • صحافی
علی

،تصویر کا ذریعہ@eliasaikaly

دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی مہم پر جانے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کو آج لاپتہ ہوئے نو دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان کی تلاش کے لیے کیے جانے والے سرچ آپریشن میں اب تک ان کا سراغ لگانے کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔

ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما برطانوی نژاد امریکی خاتون وینیسا او برائن (جو پاکستان کے لیے خیر سگالی کی سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہی ہیں اور جان سنوری کے ساتھ کے ٹو کو سر بھی کر چکی ہیں) نے اتوار کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ نو روزہ سرچ مہم کے دوران پاکستان، آئس لینڈ اور اٹلی نے محمد علی سد پارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو موہر کی تلاش کے لیے تمام دستیاب وسائل اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔

جہاں ایک جانب پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق اب تک کوئی اطلاعات سامنے نہیں آ سکی وہیں پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث سے جنم لے لیا ہے کہ کیا محمد علی سد پارہ دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کےٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی مہم پر بطور کوہ پیما شامل تھے یا وہ اس مہم میں ایک ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر بن کر گئے تھے؟

اس بحث کا آغاز پاکستان کے مایہ ناز کوہ پیما نذیر صابر، جنھیں پاکستان کی جانب سے سب سے پہلے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو فتح کرنے کے علاوہ کے ٹو سمیت آٹھ ہزار میٹر سے بلند چار چوٹیاں فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے کی گذشتہ دونوں سوشل میڈیا پر آنے والی ایک ویڈیو کے بعد ہوا۔

جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ محمد علی سدپارہ اس مہم میں بطور کوہ پیما نہیں بلکہ جان سنوری کے لیے ایک ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کے حیثیت سے شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیے

نذیر صابر نے ویڈیو میں کیا کہا؟

پاکستان کے مایہ ناز کوہ پیما نذیر صابر نے یو ٹیوب پر موجود ایک ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ سردیوں میں کے ٹو پر جانے کا فیصلہ محمد علی سدپارہ کا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جان سنوری نے محمد علی سدپارہ کو ملازمت دی تھی۔ اس مرتبہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں محمد علی سدپارہ کی منصوبہ بندی شامل نہیں تھی۔ جان سنوری ان کا دوست تھا۔ اس نے ان کی خدمات بطور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر حاصل کیں تھیں۔‘

،تصویر کا ذریعہInstagram/Johnsonerri

نذیر صابر کا اس ویڈیو میں یہ بھی کہنا تھا کہ ’محمد علی سدپارہ کو اس مہم کے لیے جان سنوری نے رقم کی ادائیگی کی تھی۔ نذیر صابر کا کہنا تھا کہ محمد علی سدپارہ بین الاقوامی معیار کے بلند پایہ کوہ پیما ہیں۔‘

نذیر صابر کے اس دعوے کو خود جان سنوری کی نومبر 2020 میں سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹس سے بھی تقویت ملتی ہے جن میں انھوں نے واضح طور پر لکھا تھا کہ وہ سکردو پہنچ چکے ہیں جہاں ان کی ملاقات ان کے ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر محمد علی سدپارہ سے ہوئی ہے۔

’جان سنوری نے علی سدپارہ کو دس ہزار ڈالر ادائیگی کی تھی‘

محمد علی سدپارہ کے مینجر راؤ احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ’جان سنوری نے محمد علی سدپارہ کی خدمات حاصل کی تھیں۔‘

،تصویر کا ذریعہ@eliasaikaly

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے۔ یہ پیشہ ہے۔ جان سنوری نے پاکستان اور دنیا بھر میں دستیاب سب سے باصلاحیت اور تجربہ کار ٹیلنٹ کا انتخاب کیا تھا۔‘

جیسمین ٹور آپریٹر کے علی اصغر کا کہنا تھا کہ ’جان سنوری نے محمد علی سدپارہ کو دس ہزار ڈالرز کی ادائیگی کی تھی۔ یہ معاوضہ اس عام معاوضے سے دگنا تھا جو عموماً غیر ملکی کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی موسم گرما میں خدمات حاصل کرتے ہوئے ادا کرتے تھے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ نیپال کے شرپا بھی موسم گرما میں چار سے پانچ ہزار ڈالرز معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

علی سدپارہ کو اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کے لیے بطور پورٹر کیوں جانا پڑا؟

محمد علی سدپارہ نے سنہ 2016 میں ایک انٹرویو میں اپنی دیرینہ خواہشات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی زندگی کے دو ہی مقصد ہیں، ایک وہ اپنی اہلیہ کو ایک سلائی مشین خرید کر دیں اور دوسرا دیرینہ خواب کہ وہ سردیوں میں کے ٹو کو سر کریں۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اس عظیم کوہ پیما کو اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کے لیے بطور ہائی ایلٹیچیوٹ پورٹر کیوں جانا پڑا؟

،تصویر کا ذریعہ@john_snorri

اس کا جواب دیتے ہوئے ان کے منیجر راؤ احمد کا کہنا تھا کہ ایک حقیقت سب کو مد نظر رکھنی چاہیے کہ محمد علی سد پارہ انتہائی مشکل حالات میں پاکستان کا پرچم بلند کیے ہوئے تھے۔

’ان کے پاس کبھی بھی ایسے وسائل نہیں تھے۔ ان کو پاکستان میں کبھی بھی کوئی ایسی سپانسر شپ نہیں ملی کہ وہ خود ہی آگے بڑھ کر کوئی چوٹی فتح کرتے۔ اس لیے جب غیر ملکی کوہ پیما آتے تو وہ ان کی مدد کرتے تھے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہاں، نیپال میں دو چوٹیوں کے لیے پاکستان کی فوج نے ان کو سپانسر کیا تھا۔ جس میں انھوں نے فتح حاصل کی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ سال پہلے تک تو وہ پورٹر اور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کا کام کرتے تھے یعنی ہزاروں فٹ کی بلندی پر کوہ پیماؤں کا سامان اٹھاتے تھے۔ جس کے بعد وہ تجربہ کار ہوئے اور چند برسوں سے وہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کی مختلف اور بہتر طریقے سے مدد کرتے تھے۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ ’چند برسوں اور حالیہ مہم جوئی کے دوران عموماً محمد علی سدپارہ آگے ہوتے، کوہ پیماؤں کے لیے راستے بناتے اور رسیاں لگاتے تھے۔ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھتے تھے۔ اس مدد کے عوض وہ معاوضہ وصول کرتے تھے۔‘

راؤ احمد کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کوہ پیما بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور اب بھی ان کو اپنا استاد مانتے تھے۔

’وہ محمد علی سدپارہ کی خدمات تو حاصل کرتے مگر وہ ان کو اپنا سامان نہیں اٹھانے دیتے تھے۔‘

خیال رہے کہ پہاڑ سر کرنے کی مہم جوئی کے دوران ہر کوہ پیما ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ مگر اس مہم میں شامل ہر ایک فرد کو پھر بھی کچھ نہ کچھ حد تک اپنا سامان خود اٹھانا پڑتا ہے۔

راؤ احمد کا کہنا تھا کہ ’محمد علی سد پارہ اور دیگر مقامی ساتھیوں کے پاس سنہ 2010 تک تو بین الاقوامی معیار کا کوہ پیمائی کا سامان تک بھی موجود نہیں ہوتا تھا۔ وہ یہ سامان غیر ملکی کوہ پیماؤں سے حاصل کرتے تھے۔ اکثر انھیں یہ سامان وہ غیر ملکی کوہ پیما دے دیتے تھے جن کی وہ مدد کر رہے ہوتے تھے یا وہ ان سے استعمال شدہ سامان سستے داموں خرید لیا کرتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’تاہم حالیہ مہمات کے دوران ان کو غیر ملکی کوہ پیما سامان فراہم کیا کرتے تھے۔‘

ایک کوہ پیما اور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کی مہم میں کیا فرق ہے؟

ایک کوہ پیما جب کسی بھی چوٹی کو سر کرنے کی مہم کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس متعلق سپانسر حاصل کرتا ہے، پیسے کا استعمال کرتا ہے اور اس متعلق اپنی تشہیر کرتا ہے۔ اور اس چوٹی کو سر کرنے کے بعد دنیا بھر میں اپنا نام کماتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہ@muhammadalisadpara

جبکہ ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر وہ شخص ہوتا ہے جو اس چوٹی تک پہنچے کے لیے اس کی راہ ہموار کرتا ہے، روٹ کا تعین کرتا ہے۔

اگرچہ آج کے دور میں کسی بھی چوٹی کو سر کرنے کے لیے کوہ پیماؤں کے پاس جہاں جی پی ایس، سیٹلائیٹ امیجنگ جیسی جدید ٹیکنالوجی میسر ہے وہی ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر ان کی مہم کا سب سے اہم رکن ہوتا ہے۔

جیسمین ٹور آپریٹر کے علی اصغر کا کہنا تھا کہ ’عموماً ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹرز کی ذمہ داریوں کا آغاز بیس کیمپ سے شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے لیے رسیاں لگا کر روٹ بناتے ہیں۔یہ انتہائی اہم ہوتا ہے۔ کوہ پیما کی ساری مہم جوئی کا انحصار ان رسیوں پر ہوتا ہے۔ کوہ پیما ان رسیوں کی مدد سے اوپر جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’رسیاں لگانے کا مطلب روٹ کی نشان دہی کرنا ہوتا ہے۔ اکثر غیر ملکی کوہ پیما، مقامی کوہ پیماؤں یا ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹرز کی خدمات روٹ یا رسیاں لگانے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔ جیسے کے ہنزہ اور سکردو کے ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کرتے ہیں یا نیپال کے شرپا کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ ہائی ایلٹیچیوٹ پورٹر کیمپ ون سے لے کر کیمپ فور تک کوہ پیماؤں کا سامان وغیرہ لے کر جاتے ہیں۔ کوہ پیماؤں کو کھانے پینے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ہائی ایلٹیچیوٹ پورٹر مہم کے بعد کوہ پیما اور سامان کو اوپر سے نیچے لے کر آتے ہیں۔‘

علی اصغر کا کہنا تھا کہ ’ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کا عموماً ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ اگر وہ کسی کوہ پیما کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتا ہے تو اس کو کوہ پیما کے ہمراہ یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پورٹر اور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر میں کیا فرق ہے؟

علی اصغر کا کہنا ہے کہ ’پورٹر پہاڑوں کی اونچائی پر کسی کی مدد نہیں کرتے، مشکل مہمات میں حصہ نہیں لیتے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ٹریکنگ کے شوقین افراد مری سے مشکپوری نتھیا گلی تک جانا چاہیں تو اپنا سامان وغیرہ اٹھانے کے لیے پورٹر کی خدمات حاصل کریں۔‘

ان کے مطابق ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر مشکل اور دشوار گزار پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں تک مہم جوؤں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ پورٹر عموماً 25 کلو تک کا سامان اٹھا کر لے جاتے ہیں جبکہ ہائی ایلٹیچیوٹ پورٹر دس کلو تک کا سامان اوپر لے کر جاتے ہیں۔

علی اصغر کے مطابق پورٹر کیمپ لگانے، کھانا پکانے میں مدد فراہم کرتے ہیں جبکہ ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کا کام مشکل ہوتا ہے۔

ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کا معاوضہ اور مسائل

علی اصغر کا کہنا تھا کہ کوہ پیمائی بھی اسی طرح کھیل ہے، جس طرح کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کے کھیل ہیں۔ جس طرح ان کھیلوں سے صنعت، روزگار اور کاروبار جڑا ہوا ہے، اسی طرح کوہ پیمائی سے بھی روزگار اور کاروبار جڑا ہوا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ عام کھیلوں سے تھوڑا زیادہ خطرناک ہے۔

وہ دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کے کھلاڑی کو اگر پیسے نہ ملیں تو کیا وہ اپنے کھیل کو جاری رکھ سکیں گے شاید یہ اس طرح ممکن نہ ہو۔

’اسی طرح کوہ پیمائی بھی ایک صنعت ہے۔ جس کے ہر ایک شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کا حصہ ملتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہINSTAGRAM/@NIMSDAI

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک کوہ پیمائی سے اربوں روپے کما رہے ہیں۔ ان کے ہاں اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نہایت خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔

'مگر اس وقت پاکستانی ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کو چار ہزار روپے سے لے کر چھ ہزار روپیہ تک فی دن کے حساب سے معاوضہ مل رہا ہے۔ جس کا زیادہ تر انحصار باہمی معاہدوں پر ہوتا ہے۔'

علی اصغر کے مطابق اس وقت پاکستانی پورٹر کی تقریباً دو لاکھ روپے تک انشورنس ہوتی ہے۔ اگر کوئی پورٹر کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو اس کو صرف دو لاکھ روپے ملتے ہیں۔ اس طرح ان کی کٹ انشورنس ہوتی ہے جو کہ ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ اسی ہزار روپے تک ہوتی ہے۔

ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے حسین گل کا کہنا تھا کہ 'ہمیں انشورنس سے لے کر فی دن معاوضہ بین الاقوامی دنیا کے مقابلے میں بہت کم ملتا ہے۔ اس وقت صرف جوتے ہی نو سو ڈالر کے ہیں جبکہ کٹ اس سے بھی مہنگی ہے۔'

حسین گل کا کہنا تھا 'ایک پورٹر اپنی جان پر کھیلتا ہے۔ اگر وہ زخمی یا بیمار ہو جائے تو اس کو گدھوں اور خچروں کی مدد سے نیچے لایا جاتا ہے۔ انشورنس کے پیسے ملتے ملتے وہ کئی نشیب و فراز دیکھ چکا ہوتا ہے۔‘

،تصویر کا کیپشن

امیر مہدی زخمی ہونے کے بعد سٹریچر پر واپس لائے گئے

ایسے ہی ایک ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر پاکستانی کوہ پیما امیر مہدی تھے جنھیں دنیا کی دوسری بلند چوٹی پر اکیلا چھوڑ کر بھلا دیا گیا تھا۔ انھوں نے سنہ 1954 میں دو اطالوی کوہ پیماؤں کمپیونی اور لِینو لاچادیلی کے کے ٹو سر کرنے کے مشن میں اُن کا بھرپور ساتھ دیا اور ایک مرحلے پر اپنی جان تک کی بازی لگا دی۔

حسین گل کا کہنا تھا کہ 'اکثر اوقات کوہ پیما اگر اپنے کسی پورٹر سے خوش ہوں تو وہ اس کو اپنا استعمال شدہ کوہ پیمائی کا سامان دے دیتے ہیں جو وہ کئی سال تک استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ ان ہی حالات میں گزارہ کر کے اپنا رزق کما رہے ہوتے ہیں اور ملک کے لیے زرمبادلہ کماتے ہیں۔'

ان کے مطابق دوسری جانب نیپال میں کسی بھی شرپا کی انشورنس پاکستانی 18 سے 20 لاکھ روپے تک ہوتی ہے جبکہ ان کو کوہ پیمائی کے لباس کے معاملے پر بھی مناسب انشورنس دی جاتی ہے۔

علی اصغر کا کہنا تھا کہ اگر غیر ملکیوں کی مہم کامیاب ہو جائے اور کوہ پیما خوش ہو تو وہ پورٹر کو انعام بھی دیتا ہے۔

حسین گل کا کہنا تھا کہ اکثر غیر ملکی انعام کے طور پر کچھ رقم اضافی دے دیتے ہیں۔ کبھی یہ زیادہ ہوتی ہے اور کبھی مناسب سے بھی کم ہوتی ہے۔ بعض اوقات غیر ملکی کوہ پیما اپنی کوہ پیمائی کا لباس وغیرہ دے جاتے ہیں جس کو پورٹر کئی برسوں تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔

کوہ پیمائی کی صنعت کی بہتری کے لیے اقدامات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق ملک میں کوہ پیمائی کے قوانین اور اصول و ضوابط میں بہتری کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان امتیاز علی تاج کے مطابق گلگت بلتستان کی حکومت، خطے میں ہر قسم کی سیاحت کی ترقی کے لیے کوشاں ہے اور اس حوالے سے اس صنعت سے وابستہ لوگوں سے رابطے قائم کر کے اپنی قانونی حدود میں رہتے ہوئے قانون سازی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں بین الاقوامی سطح کے کوہ پیمائی کی تربیت کے لیے جلد ہی ادارہ قائم کر دیا جائے گا۔ جس میں کوہ پیمائی سے منسلک افراد کی فلاح اور تربیت اولین ترجیع ہوگئی۔ جس کے لیے تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسا میکنزم تیار کرلیا جائے جس کے نتیجے میں پاکستان، گلگت بلتستان میں براہ راست مہمات شروع ہو سکیں۔

لاپتہ کوہ پیماؤں کے بارے میں سوشل میڈیا پر متعدد گمراہ کن اور چھوٹی خبروں کے حوالے سے گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان امتیاز علی تاج کا کہنا تھا کہ 'ابھی تک محمد علی سدپارہ اور ساتھیوں کے حوالے سے کوئی ٹھوش شواہد دستیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اب تک کے گئے سرچ آپریشن سے اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس وقت بہت سی گمراہ کن خبریں پھیلائی جارہی ہیں جو لاپتہ کوہ پیماؤں کے اہل خانہ کے دل آزاری اور مسائل کا سبب بن رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لاپتہ کوہ پیماؤں کے حوالے سے اگر کوئی اطلاع ہوگی تو اس بارے میں گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت کے علاوہ لاپتہ کوہ پیماؤں کے اہل خانہ خود اطلاع فراہم کریں گے۔ عوام جھوٹی اور گمراہ کن خبروں پر یقین نہ کرئیں اور ایسے خبریں پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔