سقوط ڈھاکہ: ’جب اطلاعات کا بہاؤ رک گیا اور مغربی پاکستان والوں نے کہا، شیخ مجیب غدار ہے‘
- فاروق عادل
- مصنف، کالم نگار
’ٹیلی پرنٹر ٹک ٹک کرتا بے تکان چلے اور اس کا دہانہ کریڈ اُگلے جا رہا تھا، کپڑے کے تھان کی طرح جس کی تہہ زمین سے لگتی جاتی تھی۔ نیوز روم کے ہر چھوٹے کی طرح میں اٹھا اور کریڈ پھاڑ کر اسے میز کر کنارے پر رکھ کر خبروں کے حساب سے کاٹنے لگا۔ اسی دوران میں تین سطروں کی ایک خبر پر نگاہ پڑی۔ میرے منھ سے سسکاری نکلی اور ہاتھ پاؤں سن ہو کر رہ گئے۔ وہ خبر میں نے نیوز ایڈیٹر کے سامنے رکھی، ایک نگاہ انھوں نے اس پر ڈالی اور سر جھکا لیا۔ میں جہاں کھڑا تھا، وہیں (زمین پر) بیٹھ گیا۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کیفیت میں کوئی مجھے دیکھے۔‘
جب جب سقوط ڈھاکہ کی یاد منانے کے لیے لوگ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے دفتر میں اکٹھے ہوئے تو اکثر صحافی ادریس بختیار عینک اتار کر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے دائرے میں رکھ کر اور نہایت دھیمی لیکن دکھی آواز میں یہ واقعہ دہرایا کرتے تھے۔
وہ پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کا نیوز روم تھا جہاں ادریس بختیار اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں کام کرتے تھے اور تین سطری خبر تھی، لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی اور لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے درمیان اس دستاویز پر دستخط کی جس کے تحت پہلے جرنیل نے دوسرے جرنیل کے سامنے پستول رکھا اور اپنے زیر کمان علاقہ اس کے حوالے کر دیا۔
سیاسی اور صحافتی زبان میں اس معاہدے کو سقوط ڈھاکہ یا سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز کا نام دیا گیا۔
ادریس بختیار، جن کی حال ہی میں موت ہوئی ہے، اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’پاکستانی عوام کے سامنے یہ خبر کس الفاظ میں جائے گی، اس سے بے نیاز میں آنسو بہاتا جاتا تھا اور وہ شخص (نیوز ایڈیٹر)، ہر خبر کریڈ ہونے سے پہلے جس کے اشارہ ابرو کی محتاج ہوتی تھی، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے یوں بیٹھا تھا جیسے اسے اب کوئی کام ہی نہیں کرنا۔‘
پھر یہ خبر کس انداز میں عوام کے سامنے گئی، یہ راز بزرگ صحافی اور اپنے زمانے کے مقبول انگریزی اخبار ’پنجاب پنچ' کے مدیر اعلیٰ حسین نقی نے کھولا۔
حسین نقی پاکستانی صحافت کی چند نمایاں ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کے ستر کی دہائی کے بحرانی حالات کی کلیدی شخصیات یعنی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سے بے تکلفی کی حد تک ذاتی تعلقات تھے۔
سنہ 1970 کے انتخابات کے بعد آئین سازی کے سلسلے میں شیخ مجیب سے ابتدائی بات چیت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ پہنچے تو اس موقع پر اپنے انگریزی اخبار 'سن' کی طرف سے وہ بھی ڈھاکہ گئے۔
بات چیت کے بعد چائے پر صحافیوں سے بات چیت کے موقع شیخ مجیب الرحمٰن نے انھیں دیکھا تو اردو میں کہا: ’اشے دو رش گلے اور چائے دو، کیوں کہ یہ میرا دوست بھی ہے اور دشمن بھی۔‘
حسین نقی کے بے لاگ تجزیوں پر شیخ مجیب الرحمٰن کی طرف سے یہ دوستانہ قسم کی رسید یا احتجاج تھا۔
حسین نقی نے میرے سوال پر بتایا: ’سقوط ڈھاکہ کی خبر جب مغربی پاکستان میں لینڈ ہوئی تو سرکاری ذرائع ابلاغ کے لیے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا کہ اسے کس طریقے سے نشر کیا جائے؟ اس موقع پر ریڈیو پاکستان کے ایک بہت بڑے افسر جن کا نام میں اس وقت بھولتا ہوں، بروئے کار آئے اور انھوں نے سرکاری میڈیا پر کام کرنے کے اپنے دیرینہ تجربے کے زور پر اس خبر کو ایسا جامہ پہنایا جس پر وہ تادیر کریڈٹ لیتے رہے کہ دیکھا، بات بھی کہہ دی اور کسی کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آیا۔‘
انھوں نے اپنے وقت کی سب سے بڑی یعنی سقوط ڈھاکہ کی خبر کو اس قسم کے الفاظ عطا کیے: ’دو مقامی کمانڈروں کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کے بعد جنگ بند ہو گئی۔‘
روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی میں 17 دسمبر 1971ء کو شائع ہونے والی خبر کا تراشا جس میں جنگ بندی کی اطلاع دی گئی، اس خبر یہ مسودہ وفاقی وزارت اطلاعات کے افسر اعلیٰ کے دفتر میں تیار ہوا۔ خبر کی مرکزی سرخی میں سقوط ڈھاکہ یا جنگ بندی کا ذکر نہیں کیا گیا۔
بعض اخبارات میں اس خبر میں یہ اطلاع بھی فراہم کی گئی تھی کہ سمجھوتے کے بعد انڈین فوج ڈھاکہ میں داخل ہو گئی ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک سابق ڈائریکٹر نیوز جو اس زمانے میں ان ہی واقعات کی رپورٹنگ کر رہے تھے نے بتایا: ’یہ خبر وفاقی وزارت اطلاعات کے افسراعلیٰ کے دفتر سے شعبہ خبر کے سربراہ زبیر علی شاہ نے ٹیلی فون پر لکھوائی تھی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں: ’گمان کیا جاسکتا ہے کہ اس دفتر کے بابؤں نے اُس وقت دنیا کی اس سب سے بڑی خبر کو جو الفاظ دیے ہوں گے، وہاں ملک کے تین سرکاری اداروں کے نمائندوں کو اس کی نقول دے دی گئی ہوں گی جو انھوں نے اپنے اپنے اداروں کو ٹیلی فون پر لکھوا دیں۔‘
اس افسر اعلیٰ کے دفتر اس خبر کو جو الفاظ دیے گئے تھے، بعد میں پورے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان ہی کی جگالی ہوئی۔
لیکن جس روز پاکستانی اخبارات کے صفحہ اول کے نچلے نصف میں یہ خبر شائع ہوئی، اسی روز ان ہی صفحات پر اس وقت کے فوجی حکمراں جنرل محمد یحییٰ خان کے سرکاری ذرائع ابلاغ سے شائع ہونے والی تقریر آٹھ کالمی شہ سرخیوں میں شائع ہوئی جس میں انھوں نے دشمن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
یحییٰ خان نے اپنی اس تقریر میں مقامی کمانڈروں کے سمجھوتے والی خبر کا ذکر ان میں الفاظ میں کیا تھا کہ وقتی طور پر ایک محاذ پر پیچھے ہٹنے کے باوجود باقی محاذوں پر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا جب کہ اگلے روز ان ہی یحییٰ خان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان اخبارات کی زینت بنا۔
روزنامہ مشرق لاہور کا 17 دسمبر 1971ء کے صفحہ اوۤل کا وہ حصہ جس میں مارشل لا حکومت کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کی تقریر جلی سرخیوں میں شائع ہوئی، اپنی تقریر میں انھوں نے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا اور اسی خبر کے متن میں سقوط ڈھاکہ کو ایک محاذ سے عارضی طور سے پیچھے ہٹنے کا نام دیا گیا اور اعلان کیا کہ جنگ جاری رہے گی۔
پاکستان کے حکمراں طبقات اور ذرائع ابلاغ کا طرز عمل
یحییٰ خان نے 25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کیا تھا۔ تقریباً تین ماہ قبل دسمبر 1970ء میں ملک میں عام انتخابات ہو چکے تھے جن میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔
اب وہ توقع کر رہی تھی کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق چھ نکات کی روشنی میں نہ صرف وہ ملک کو نیا آئین دے سکے گی بلکہ اس جماعت کو حق حکمرانی بھی حاصل ہو جائے گا۔
مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا، اس کے خد و خال کے تعین کے لیے اکثریتی جماعت عوامی لیگ اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے درمیان بات چیت جاری تھی۔
اس دوران میں فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان بھی ڈھاکہ پہنچ کر شیخ مجیب الرحمٰن سے بات چیت کر چکے تھے لیکن معاملات طے نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔
حسین نقی کی نظر میں: ’ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا فوجی حکمراں یحییٰ خان، وہ دونوں چاہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی بھاری اکثریت کے باوجود مستقبل کے سیاسی نظام میں انھیں بھی غالب حصہ مل جائے۔ ان دونوں کی یہ خواہش پوری ہونی چونکہ ممکن نہیں ہو رہی تھی، اس وجہ سے بحران سنگین ہو گیا۔‘
جنرل یحییٰ خان نے 22 مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس دوسری مرتبہ ملتوی کر دیا جس پر عوامی لیگ کا احتجاج فطری تھا۔
اس احتجاج کے بارے میں حکومت کے زیر انتظام پریس ٹرسٹ کے زیر انتظام شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار 'مشرق‘ کی تین اپریل کی اشاعت میں ادارتی صفحے پر مضمون شائع ہوا جس کے مصنف اخترالاسلام صدیقی ہیں۔ انھوں نے لکھا: 'جب صدر مملکت کی پر خلوص کوششوں کے باوجود شیخ مجیب اڑے رہے اور علیحدگی پسندانہ پالیسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی، پاکستانی پرچم کی توہین کی، قائد اعظم کی تصویر کو پھاڑا۔‘
معاملات اس نہج پر کیوں پہنچے ہوں گے؟ 26 مارچ 1971ء کے نوائے وقت کی شہ سرخی کے مطابق مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں جن میں رنگ پور، چاٹگام، سید پور اور دیو پور وغیرہ شامل تھے، مظاہرین اور فوج کے درمیان تصادم کی خبر شائع ہوئی جن میں 64 افراد مارے گئے۔
شیخ مجیب الرحمٰن کی طرف سے بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں اس بیان کے باوجود میں مغربی پاکستان میں ان کے مؤقف کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر تھی ۔
خبر میں بتایا گیا کہ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب فوجی اہل کار ایک بحری جہاز سے اسلحہ منتقل کر رہے تھے۔
اس سے اگلے روز کے اخبار اس سے بھی بڑی خبر کے ساتھ شائع ہوئے جن میں بتایا گیا:
1۔ ملک بھر میں سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے
2۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کو غدار قرار دے کر عوامی لیگ کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا ہے۔
3۔ مشرقی پاکستان کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے مارشل لا کے تحت فوج کو ذمہ داری سونپ دی گئی جب کہ صوبے بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
4۔ ملک بھر میں سنسر شپ نافذ کر دی گئی۔
مارشل لا انتظامیہ کے اعلامیے کے مطابق اس کارروائی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مشرقی پاکستان میں قومی سالمیت خطرے میں پڑ چکی تھی۔
یحییٰ خان اور ان کی مارشل لا انتظامیہ اس انتہائی کارروائی پر مجبور کیوں ہوئی؟ اس کی کچھ تفصیلات مشرقی پاکستان کے مختلف حصوں میں تصادم اور تشدد کے واقعات کی صورت میں رپورٹ ہوئیں لیکن الطاف حسن قریشی ایک مختلف بات کہتے ہیں۔
'یحییٰ خان، عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان بات چیت ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن نے 23 مارچ 1971ء کو اپنے طور پر آئینی تجاویز پیش کر دیں جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
یحییٰ خان اور پیپلز پارٹی نے یہ تجویز اس لیے مسترد کر دی کہ ان کے خیال میں ان دونوں قوتوں کا حلقہ انتخاب اسے قبول کرنے کی صورت میں ان کے خلاف بغاوت کر دیتا حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت حالات جس نہج پر پہنچ چکے تھے، ملک کو متحد رکھنے کا یہی ایک راستہ باقی رہ گیا تھا۔'
تو آپ کنفیڈریشن کی جس تجویز کا ذکر کر رہے ہیں، اس زمانے کے اخبارات میں تو اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا؟
اس سوال پر الطاف حسن قریشی نے کہا کہ ’آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ مارشل لا کا زمانہ تھا، سنسر شپ کا نفاذ تھا، اطلاعات کی روانی ختم ہو چکی تھی اور مغربی پاکستان کے عوام بالکل نہیں جانتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور نہ لوگ یہ جانتے تھے کہ وہاں کے عوام بدلے ہوئے کے جذبات کا رخ کیا ہے۔‘
جس دن مشرقی پاکستان میں کارروائی کے لیے فوج کو اختیارات دیے گئے، اسی روز کے اخبارات کے صفحہ اول پر یہ اطلاع بھی شائع ہوئی کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ ڈھاکہ سے کراچی واپس پہنچ گئے۔
اس موقع پر انھوں صحافیوں سے تفصیلی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا، البتہ ایک جملہ کہا جو مِن و عن اخبارات میں رپورٹ ہو گیا: 'خدا کے فضل و کرم سے پاکستان کو بچا لیا گیا۔‘
روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی کی 27 مارچ 1971ء کی اشاعت کے صفحہ اول کا وہ حصہ جس میں مشرقی پاکستان میں آپریشن اور عوامی لیگ پر پابندی کی اطلاع دی گئی ہے۔ اسی صفحے کے نچلے میں حصے میں ذوالفقار علی بھٹو کا وہ معروف بیان دیکھا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔
ملک کے حالات میں پیدا ہونے والی اس غیر معمولی پیش رفت پر دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کا ردعمل بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔
آنے والے دنوں میں مشرقی پاکستان میں انڈیا سے مسلح جتھوں کے داخلے، علیحدگی پسندوں کو اسلحے اور بھاری مالی وسائل کی فراہمی کے خبریں پے درپے شائع ہوئیں۔
ریڈیو رپورٹ کے ذریعے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا کہ مشرقی پاکستان میں مداخلت کی خبریں سامنے آنے پر انڈین ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے ان سے سخت احتجاج کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ اس طرز عمل کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
مشرقی پاکستان کی صورت حال میں انڈیا کی مداخلت کی خبریں آنے کے بعد مغربی پاکستان کا سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر بدل گیا۔
حکومت کے زیر انتظام چلنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی جاری کردہ ایک خبر تین اپریل کے اخبارات میں شائع ہوئی، اس خبر کے دو نکات قابل توجہ تھے:
1۔ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن نے چاٹگام کی بندر گاہ کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔
2۔ مشرقی پاکستان میں انڈین اسلحہ بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جارہا ہے۔
اسی روز روزنامہ مشرق کے سٹاف رپورٹر نے ایک خبر دی جس میں انکشاف کیا گیا کہ اطلاعات کے مطابق ’انڈین حکومت نے ایک نام نہاد جلاوطن بنگلہ دیشی حکومت کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور جیسے ہی جلا وطن حکومت کے قیام کا اعلان ہو گا، بھارتی حکومت فوری طور پر اسے تسلیم کر لے گی۔‘
اسی اخبار میں ریڈیو پاکستان کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں اور خاص طور پر ہندوؤں کو اسلحہ کی فراہمی کی ایک بڑی انڈین سازش کا انکشاف ہوا۔
مشرق اخبار کی ایک اور خبر میں انکشاف کیا گیا کہ انڈین فوج نے مشرقی پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنے کیمپ قائم کر لیے ہیں جن میں دہشت گردوں کو تربیت دی جا رہی ہے، اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور انھیں مشرقی پاکستان میں داخل کیا جا رہا ہے۔
مشرقی پاکستان کی پیچیدہ صورت حال علیحدگی کی تحریک اور پر تشدد ہنگاموں میں کیسے بدلی، اس سوال کا جواب سرکاری اخبار' مشرق' نے 27 مارچ کے اداریے میں دیا جس میں انکشاف کیا گیا:
'امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پاکستان کو چین کے ساتھ اس کے تعلقات کا مزہ چکھانے کے لیے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کر رہی ہے۔‘
اس بحران میں ملک کی سب سے بڑی جماعت عوامی لیگ اور اس کی قیادت کا کردار کیا تھا، اس سوال کا جواب اگرچہ یحییٰ خان نے قوم سے اس نشری خطاب میں دے دیا تھا جس میں شیخ مجب الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان کا غدار قرار دیا گیا تھا۔
لیکن شیخ مجیب الرحمٰن کی حب الوطنی کے بارے میں بھی ذرائع ابلاغ میں کافی کچھ شائع ہو رہا تھا۔
اس کی ایک مثال اختر الاسلام صدیقی کا مشرق میں ہی شائع ہونے والا مضمون ہے جس میں قارئین کو بتایا گیا: 'شیخ مجیب الرحمٰن کو ہندوستان کی ہمیشہ بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ سابق صدر ایوب کے زمانے میں جب ان پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا، اس وقت بھی ہندوستان نے ان کی حمایت کی تھی، پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں شیخ صاحب سب سے بڑی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھرے تو ہندوستانی خبر رساں ایجنسیوں نے مسرت کا جشن منایا۔'
اسی مضمون میں وہ مزید لکھتے ہیں: 'غداری اور بغاوت کے جرم میں جب شیخ صاحب کو گرفتار کیا گیا تو یہ 12کروڑ پاکستانیوں کے دل کی آواز تھی مگر ہندوستان نے اس کے خلاف زور شور سے واویلا کیا، اب بھی ریڈیو کا زیادہ وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں صرف ہو رہا ہے۔'
اس مضمون میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ کلکتہ میں دریائے ہگلی کے کنارے انڈیا نے ایک خفیہ ریڈیو سٹیشن قائم کیا ہے جسے ' صدائے بنگلہ دیش' کا نام دیا گیا ہے۔
مغربی پاکستان کے اخبارات کے پیدا کردہ اس تاثر کی نمائندگی کرنے والا یہ کارٹون کہ شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کے ایجنٹ ہیں، یہ کارٹون روزنامہ مشرق لاہور کے ادارتی صفحے پرمیں 2 جون 1971ء کو شائع ہوا
مغربی پاکستان کے پریس میں جن دنوں اس نوعیت کی خبریں شائع ہو رہی تھیں، اس صورت حال کی مذمت کے لیے مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین بھی بہت پرجوش تھے۔
مارچ سے دسمبر 1971ء تک ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا اور اس کے بعد کے آپریشن کے زمانے میں ان کی تعداد دیگر ایام کی نسبت زیادہ ہے۔
تین اپریل کو 'مشرق' کے صفحہ اول پر اے پی پی کا جاری کردہ سیاسی رہنماؤں کا ایک مشترکہ بیان جاری ہوا جس میں مشرقی پاکستان میں آپریشن کے سلسلے میں یحییٰ خان کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔
یہ بیان جس میں قومی اسمبلی کے ایک رکن اور چند دوسری صف کے رہنما تھے، الزام عائد کیا کہ عوامی لیگ اور اس کے رہنما پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔
اسی زمانے میں نیشنل عوامی پارٹی (بعد میں کالعدم) کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن ولی خان نے ایک بیان میں مسلح انڈین باشندوں کی مشرقی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں داخلے کی مذمت کی اور اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے اس مشکل وقت میں عوام سے متحد ہونے کی اپیپل بھی کی۔
جمیعت علمائے اسلام کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں غیر ملکی مداخلت کو جائز تسلیم کر لیا گیا تو دنیا کا کوئی ملک بھی آزاد نہیں رہ سکے گا۔
مسلم لیگی رہنما خان عبدالقیوم خان نے بھارتی کارروائیوں کو اعلان جنگ کے مماثل قرار دیا۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم خان مشرقی پاکستان میں انڈین کی مداخلت کو ایک خوفناک سازش قرار دیا۔
ان رہنماؤں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا ردعمل زیادہ سخت تھا۔ اس جماعت کے رکن قومی اسمبلی مولانا کوثر نیازی نے اپنے بیان میں کہا: ’پاکستان کی سالمیت کے خلاف انڈین کی سازش واضح ہو گئی ہے اور شیخ مجیب الرحمٰن نے دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔‘
مشرقی پاکستان میں بڑھتے ہوئے تشدد اور خاص طور پر صوبے کے مختلف شہروں میں کارروائیوں کے دوران میں 64 افراد کے قتل کی خبر جس روز یعنی 22 مارچ 1971 کو شائع ہوئی، شیخ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ بحران کے حل میں تاخیر تباہ کن ہو گی۔ ' نوائے وقت' میں ان کا بیان ان الفاظ میں شائع ہوا: ’شیخ مجیب الرحمٰن نے موجودہ بحران کے حل میں تاخیر پر تاسف کا اظہار کیا ہے اور اس تاخیر کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔ اگر صدر یحییٰ اور ان کے مشیر بحران کا کوئی سیاسی حل چاہتے ہیں تو انھیں معاملات کو فی الفور کسی نتیجے پر پہنچا دینا چاہیے۔ ورنہ تاخیر کی صورت میں ملک اور عوام کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو جائیں گے۔`
اس بیان میں انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر طاقت سے کوئی فیصلہ تھوپنے کی کوشش کی گئی تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
متحدہ پاکستان کی تاریخ میں یہ دن یعنی 22 مارچ 1971 کئی اعتبار سے اہم تھا کیوں کہ اس روز مغربی پاکستان کے ایک بڑے شہر لائل پور(موجودہ فیصل آباد) میں شدید ہنگامے، لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ ہوا جس سے نمٹنے کے لیے کرفیو لگانا پڑا۔ اخبار کے مطابق ان ہنگاموں کی ذمہ دار پیپلز پارٹی تھی۔
شیخ مجیب الرحمٰن کی طرف سے بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں اس بیان کے باوجود میں مغربی پاکستان میں ان کے مؤقف کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس فضا میں مشرقی پاکستان کی صورت حال کو علیحدگی کی تحریک اور عوامی لیگ کی قیادت کے غیر محب وطن قرار دینے کا مؤقف مقبول ہو رہا تھا۔
مارچ 1971ء سے لے کر دسمبر تک پھیلی جنگ کے دوران متحدہ پاکستان کی حامی اور فوج کے ساتھ مل کر جنگ میں شرکت کرنے والی رضا کار تنظیم البدر کی سرگرمیوں کو کتاب 'البدر' میں ریکارڈ کرنے والے سلیم منصور خالد نے اس سوال کا جواب یوں دیا:
’سچی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو اگر آپ آج کے ماحول میں جمع تفریق کر کے دیکھیں گے تو سوال کے جواب میں بالکل غلط نتیجے پر پہنچیں گے کیوں کہ یک طرفہ بیانیہ اور جمہوری رویے کی باتیں بعد کی سوچ (آفٹر تھاٹ) تھیں۔
اس صورت حال کی ابتدا انڈین میں ہونے والی اس پیش رفت سے ہوئی، جب لوک سبھا میں غالباً 29 مارچ 1971ء ہی کو اندرا گاندھی کی پیش کردہ قرار داد اتفاق رائے سے منظور کر لی اور اپوزیشن لیڈر جے پر کاش نارائن نے اس کی بھر پور حمایت کی۔
اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ انڈیا بنگلہ دیش میں جاری تحریک (آزادی) کا بھرپور ساتھ دے گا۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس وقت تک دنیا میں کہیں بنگلہ دیش کا کوئی وجود نہیں تھا مگر انڈین پارلیمنٹ اس لہجے میں بات کر رہی تھی۔ ‘
سقوط ڈھاکہ سے قبل بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی حمایت کے سلسلے میں قرارداد میں منظوری کے بعد 2 اپریل 1971ء کو روزنامہ نوائے وقت راولپنڈٰی کے صفحہ اول پر شائع ہونے والا کارٹون۔
اس قرارداد نے پاکستان اور خاص طور مغربی پاکستان میں سرخ، سبز، لبرل، سوشلسٹ اور پاکستانی قوم پرستوں اور مذہبی جماعتوں اور ان کے حامیوں کے درمیان خطرے کی گھنٹی بجا دی، اور ظاہری شواہد کی بنیاد پر یہ سمجھا گیا کہ انڈیا نے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ہے۔
اس صورت حال میں پاکستان کی سالمیت کے نکتے پر مغربی پاکستان کے دائیں اور بائیں بازؤں کو متحد کر دیا اور وہ ملک کی سلامتی کے لیے یک آواز ہو گئے۔`
سلیم منصور خالد کی اس عہد کی صحافت پر بھی گہری نظر ہے، انھوں نے اس زمانے کے اخبارات و جرائد کے بارے میں ایک دلچسپ جملہ کہا: ’جماعت اسلامی کا (ہفت روزہ) ’ایشیا' ہو یا بائیں بازو کا (ہفت روزہ) 'الفتح' ، اس زمانے میں مشرقی پاکستان پر انڈین یلغار اور سبوتاژ کی کارروائیوں کی مذمت اور پاکستان کی سالمیت پر فکر مندی کے اعتبار سے ان کے مزاج اور مواد میں کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ اگر کوئی ان دونوں پرچوں کے سرورق پھاڑ دیتا، تو مشرقی پاکستان کی نسبت سے انھیں الگ الگ پہچاننا مشکل ہو جاتا۔‘
بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے بزرگ صحافی حسین نقی ذرا سے فرق کے ساتھ اس تاثر کی تصدیق کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’دیگر تمام اخبارات ایک ہی روش پر گامزن تھے سوائے روزنامہ 'آزاد' کے جس کی ادارتی پالیسی مظہر علی خان کی نگرانی میں تشکیل پائی تھی۔ اس اخبار میں تصویر کا دوسرا رخ شامل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔‘
انڈین پارلیمنٹ میں قرارداد کی منظوری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں پروفیسر سلیم منصور خالد کا تاثر درست محسوس ہوتا ہے۔
اگرچہ اس واقعے کی خبر مغربی پاکستان کے اخبارات میں شائع نہیں ہوئی لیکن اداریوں اور کالموں کے علاوہ کارٹونوں کی شکل میں اس پر تند و تیز تبصروں کے علاوہ سیاسی قائدین نے بھی سخت الفاظ میں تنقید کی جن میں سے کچھ کا تذکرہ اس جائزے میں ہو چکا ہے۔
سیاسی رہنماؤں میں کونسل مسلم لیگ کے رہنما میاں ممتاز محمد خان دولتانہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنھوں نے اپنے بیان میں اسے شرم ناک اور پاکستان کے خلاف منظم دھمکی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے
پرنٹ میڈیم کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اس صورت حال پر ردعمل کی کیا صورت تھی، پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک سابق ڈائریکٹر نیوز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’خال ہی کوئی رہنما اور صحافی ہو گا جس نے اس زمانے میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آ کر سرکاری بیانیے کے حق میں بات نہ کی ہو۔
’خبری پروگراموں کے علاوہ ان دنوں کوئی دوسرا پروگرام نشر نہیں ہوا۔ خبری بلیٹن کے بعد خبروں پر تبصرہ کے نام سے ان پانچ سے سات منٹ کے پروگرام نشر ہوا کرتے تھے اور یہ سب لوگ ان پروگراموں میں سرکار کا مؤقف ہی اجاگر کیا کرتے تھے۔‘
لیکن کیا سبب تھا کہ اس زمانے کے ذرائع ابلاغ میں صرف ایک ہی مؤقف دکھائی دیتا تھا، ملک دشمنی اور علیحدگی پسندی کے تعلق سے فریق مخالف کی بات کو کوئی جگہ نہ ملی؟
پی ٹی وی میں اہم ذمہ داریوں پر فائز بزرگ صحافی نے اس سوال کے جواب میں بتایا: ’اس سلسلے میں سرکاری ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ اخبارات کی مجبوری بھی سمجھنی چاہیے کہ ملک حالت جنگ میں تھا اور خبر کے حصول کے ذرائع محدود تھے۔ سرکاری ذرائع اور آئی ایس پی آر سے جو خبر انھیں ملتی، ذرائع ابلاغ کا تمام تر انحصار اسی پر تھا۔'
ذرائع ابلاغ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، انھیں خبریں کس طرح ملا کرتی تھیں، انھوں نے یہ کہانی بھی بیان کی: ’راولپنڈی میں ان دنوں آر اے بازار میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا پریس روم ہوا کرتا تھا، روزانہ دن میں ایک یا اگر ضرورت ہوتی تو دوبار صحافیوں کو یہاں بریفنگ دی جاتی، بعد میں جگہ کم پڑ گئی تو یہی بریفنگ ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل میں دی جانے لگی۔
اس بریفنگ میں وزارت خارجہ کے ایک ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مقبول بھٹی اور تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کے علاوہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے سربراہ بریگیڈئر اے آر صدیقی بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں آپریشن اور اس کے بعد جنگ سے متعلق تمام تر خبروں کے حصول کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ اس کے علاوہ اگر کسی وقت ضرورت ہوتی تو آئی ایس پی آر بھی بیان جاری کر دیا کرتا تھا۔‘
اس ہنگامہ خیز ماحول میں مغربی پاکستان کے عوام کم و بیش کیسے ایک ہی طرح سوچنے لگے، اس سوال کا جواب اس گواہی میں مل جاتا ہے اور چوں کہ ملک میں سنسر شپ کا نفاذ بھی کر دیا گیا تھا، اس لیے کسی متوازی آواز کو جگہ ملنے کا امکان کم سے کم رہ جاتا ہے۔
فریق مخالف کا نکتہ نظر سامنے لانے کے سلسلے میں اخبارات کو اس زمانے میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا رہا ہوگا، اس کا اندازہ روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے یکم اپریل 1971ء کے شمارے کے مطالعے سے ہوتا ہے جس میں اس روز اکٹھے دو صفحات کسی مواد کے بغیر بالکل خالی شائع ہوئے، ان میں ایک ادارتی صفحہ بھی تھا۔
مغربی پاکستان کی رائے عامہ تک سرکاری مؤقف یا بیانیہ پہنچانے کے لیے صرف خبروں کی یک طرفہ اشاعت سے ہی کام نہیں لیا گیا بلکہ ان خبروں کی بنیاد پر عوام کے خیالات کو ایک خاص رخ دینے کے لیے خصوصی طور پر مضامین بھی لکھوائے گئے جن میں عوامی لیگ اور اس کی قیادت پر حب الوطنی کے سوالات اٹھانے کے علاوہ اس کے مینڈیٹ کی نفی کی بات بھی کہی جاتی۔
حسین نقی اس سلسلے میں خصوصی طور پر لکھوائے گئے چودہ مضامین کا ذکر کرتے ہیں۔ ان مضامین کے مصنفین کی شناخت کے بارے میں حسین نقی نے کہا: ’کوئی نہیں جانتا ان مضامین کا لکھنے والا کون تھا؟ انگریزی میں یہ مضامین نیوز ایجنسیوں سے کریڈ کیے جاتے جنھیں انگریزی اخبارات میں حرف بحرف اور اردو اخبارات میں ترجمہ کر کے شائع کیا جاتا۔‘
’محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے‘ کے عنوان سے اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ الطاف حسن قریشی کا ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا تھا۔ حسین نقی اسے بھی اسی مہم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
الطاف حسن قریشی اس تاثر کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ’اردو ڈائجسٹ میں میرے مضامین کا یہ سلسلہ 1966ء میں شائع ہوا اس لیے انھیں یحییٰ خان کی یک طرفہ پروپیگنڈا مہم کا حصہ قرار دینا غلط ہی نہیں بلکہ شرم ناک ہے۔‘
اس سوال پر کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کے دورے کس کی تحریک پر کیے، الطاف حسن قریشی نے کہا: 'خود اپنی تحریک پر۔ میں 1964ء سے ہر سال مشرقی پاکستان جاتا اور پورے مشرقی پاکستان چھوٹے بڑے شہروں میں جا کر لوگوں سے ملتا۔ ان کے مسائل معلوم کرتا اور قومی صورت حال کے بارے میں ان کے تاثرات سے براہ راست آگاہی حاصل کر کے اپنے ماہ نامے میں لکھا کرتا۔ مشرقی پاکستان کی طرف میری توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب چھ نکات کا سامنے آئے اور لاہور میں حزب اختلاف کی قومی کانفرنس میں ان پر غور کیے بغیر انھیں مسترد کر دیا۔
میرے لیے یہ بڑی حیرت بلکہ دکھ کی بات تھی کہ سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی بوگرہ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسی سنجیدہ شخصیات نے ان نکات کو غداری قرار دے کر شیخ مجیب الرحمٰن کو کانفرنس سے نکال دیا۔ سنہ 1966ء میں 65ء کی جنگ کے بعد میرا خاص طور پر مشرقی پاکستان جانا ہوا۔
نیشنل کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی جس میں شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پر مشتمل اپنی تجاویز پیش کیں، تصویر میں شیخ صاحب کے علاوہ کمیٹی کے اراکین نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا مودودی اور دیگر موجود ہیں۔ تصویر نوائے وقت فائل، نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد
میرا مشاہدہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی شکایتیں ہیں۔ ان کی شکایتوں کا آغاز 1962ء کے دستور سے ہوا تھا جس میں صوبائی خود مختاری کو مکمل طور پر سلب کر لیا گیا تھا جب کہ ان کا مطالبہ صوبائی خود مختاری تھا۔ اسی طرح وہاں کے سنجیدہ ترین لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہ تصور راسخ ہو گیا تھا کہ ہر خرابی کی ابتدا مغربی پاکستان سے ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح ان کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی پٹ سن کی آمدنی سے بھی مغربی پاکستان ہی فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس قسم کی شکایات کے باوجود مشرقی پاکستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ محبت کرتے تھے اور وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتے تھے اور وہ علیحدگی نہیں چاہتے تھے لیکن واضح رہے کہ یہ تاثر 1966 کا ہے۔ میرا یہی مشاہدہ تھا جس کی بنا پر میں نے وہ معروف مضمون لکھا جس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔‘
الطاف حسن قریشی کے سلسلہ وار مضامین کی بحث اپنی جگہ لیکن اس زمانے کے مغربی نہیں بلکہ مشرقی پاکستان کے اخبارات میں بھی اس قسم کے مضامین ملتے ہیں جن میں عوامی لیگ پر زور دیا گیا کہ وہ انتخابی کامیابی کے باوجود اپنے انتخابی منشور کو نظر انداز کر دے۔
یکم جنوری 1971ء کو 'نوائے وقت' کے ادارتی صفحہ پر سعدی سنگروری کا مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ پارلمینٹ کے انتخاب کے بعد حزب اختلاف اور حزب اقتدار کا تصور بےمعنی اور غیر اسلامی ہے اور مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اب وہ اپنی جماعتوں کے ایجنڈے اور منشور سے لاتعلق ہو کر صرف اور قومی مفاد میں آئین سازی کریں۔
روزنامہ 'مشرق' میں کیپٹن ممتاز ملک کے نام سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ تحریک آزادی کے دوران قائد اعظم نے انگریز حکمرانوں سے جداگانہ انتخابات کا اصول منوایا تھا، بالکل اسی طرح 1970ء کے انتخابات بھی اسی اصول کے تحت ہونے چاہیے تھے اور اگر ایسا ہو جاتا تو مشرقی پاکستان کا ہندو ووٹر عوامی لیگ کے چھ نکات کے حق میں ووٹ نہ دے سکتا۔
روزنامہ 'مشرق' میں میاں دل نواز نامی ایک مضمون نگار نے لکھا: 'غالب اکثریت کے باوجود یہ مناسب نہیں کہ عوامی لیگ اب اپنے چھ نکات پر اصرار برقرار رکھے۔‘
17 دسمبر 1971ء کو تجدید عہد کے عنوان سے نوائے وقت نے ایک مضمون میں جس پر مصنف کا نام درج نہیں تھا، لکھا کہ ایک سپر طاقت نے پاکستان کو توڑنے کے لیے یہ جنگ پاکستان پر مسلط کی ہے۔
'نوائے وقت' نے ایک اداریے میں لکھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے جب بنگلہ دیش کے خواب کو عملی شکل دینے کے لیے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی اور متوازی حکومت قائم کر دی تو ان کے محسن انڈین حکمرانوں نے اپنی امداد و اعانت فزوں تر کر دی۔‘
اسی اخبار میں 'مبصر' کے قلمی نام سے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے مضمون میں لکھا گیا کہ یحییٰ خان نے ملک کے آئینی مسئلہ میں عوامی لیگ کے غیر مصالحانہ رویے کے پیش نظر جو قدم اٹھایا ہے، وہ ناگزیر اور حالات کا منطقی نتیجہ تھا۔‘
شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کی جماعت کے خلاف ملک توڑنے کا بیانیہ مغربی پاکستان میں کیوں مقبولیت اختیار کر گیا، پروفیسر سلیم منصور خالد کے خیال میں اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترو لیگ کے دباؤ کا شکار تھے بلکہ یرغمال تھے اور کچھ ایسی باتیں کہنے پر بھی مجبور ہوجاتے تھے جو وہ نہیں کہنا چاہتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ عوامی لیگ کے چھ نکات مقابلے میں چھاترو لیگ گیارہ نکات رکھتی تھی جن میں چھ نکات سے بھی زیادہ شدت تھی۔
ڈھاکہ کے بعض اخبارات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی شائع ہونے والی تقریروں کی تفصیلات سے پروفیسر خالد کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں ڈھاکہ سے شائع ہونے والا انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں چار جنوری 1971ء کو ان کی ایک تقریر شائع ہوئی جو انھوں نے اپنے نومنتخب اراکین پارلیمنٹ کے حلف برداری کی تقریب کے موقع پر کی۔
،تصویر کا ذریعہCourtesy Farooq Adil
ڈھاکہ کے اخبار مارننگ نیوز کا 4 جنوری 1971ء کا صفحہ اول جس میں شیخ مجیب الرحمٰن کی وہ تقریر شہہ سرخیوں میں شائع کی گئی جس میں انھوں نے چھ نکات اور بنگلہ دیش پر کسی سمجھوتے سے انکار کیا ہے۔
اس خطاب میں انھوں نے کہا کہ چھ نکات اور بنگلہ دیش پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ ان ہی دنوں ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کے مینڈیٹ کے خلاف سازشیں جاری ہیں اور ان سازشوں سے نمٹنے کے لیے انھوں نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ڈنڈے تیار رکھیں۔
سیاسی قائدین مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے عوامی اجتماعات میں اکثر بے لچک باتیں کیا کرتے ہیں۔
شیخ مجیب کی اس قسم کی تقریریں بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہیں لیکن انڈین پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش کی آزادی کی حمایت کی قرارداد، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے آغاز اور اس کے ساتھ ہی سنسر شپ کے نفاذ کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کے تمام میڈیم یک طرفہ ہو چکے تھے۔
مشرقی پاکستان میں آپریشن کے اعلان سے پہلے تک عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن یا ان کے ایک دو نائبین یا اس جماعت کے مؤقف کو مغربی پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ایک حد تک جگہ ملی لیکن آپریشن شروع ہو جانے کے بعد اس پر ملک دشمنی، انڈیا کا آلہۤ کار بن جانے یا دہشت گردی کے جو سنگین الزامات عائد کیے گئے، اس کی صفائی دینے کا کوئی موقع اسے میسر نہیں تھا۔
اس زمانے میں جو مواد سامنے آیا اوراس کے اثرات عوام پر محسوس کیے گئے۔ ان ہی اثرات کو سمجھنے کے لیے میں نے ایک بزرگ خاتون کشور سلطانہ سے سوال کیا۔ 80 برس کی یہ خاتون ان دنوں بھرپور جوان تھیں اور اس زمانے کی روایت کے مطابق خاتون خانہ کی حیثیت سے گھرداری کیا کرتی تھیں۔ میں ان سے سوال کیا کہ ان کے خیال میں بنگلہ دیش کیسے بنا؟بزرگ خاتون نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا: 'میرے مرحوم شوہر بتایا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے ہندو اگر مجیب کو ووٹ نہ دیتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔'