مریم نواز: پہلے گانا، اور اب پہناوا سوشل میڈیا پر زیر بحث

مریم

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

'مہر النساء یہ تم پہنو گی؟' نند نے حیران ہو کر پوچھا۔'ہاں، کیوں نہیں پہن سکتی؟ میرے بیٹے کی منگنی ہے۔'

یہ آخری جملہ ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل 'دوبارہ' میں حدیقہ کیانی کا ہے جو مہرو نامی ایک ایسی ماں کا کردار ادا کر رہی ہیں جن کی شادی بہت کم عمری میں ہوتی ہے اور پھر شوہر کے انتقال کے بعد انہیں احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت عمر دوسروں کی مرضی سے بتا دی۔

لیکن اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے عمل کی شروعات میں انھیں روایتی جملے سننا پڑتے ہیں جن میں انہیں بیوہ ہونے کا احساس دلاتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ اس عمر میں کس طرز کے کپڑے اور رویے اپنانے چاہیے، یہاں تک کہ اپنے بیٹے کی شادی میں کس طرح تیار ہونا چاہیے۔

خواتین کی عمر اور خوش لباسی کی اس بحث نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی اپنے بیٹے جنید صفدر کی شادی کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔

مریم نواز کی جانب سے اس تقریب کو نجی معاملہ قرار دینے کے باوجود سوشل میڈیا پر پہلے ان کے گانے اور اب ان کے پہناوے زیر بحث ہیں۔

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

'لو، بھلا یہ عمر ہے مریم کی ایسے سجنے سنورنے کی'

مریم نواز کے بیٹے کی شادی کی تقریبات پر ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر آئیں تو بھانت بھانت کے مشورے اور خیالات سامنے آئے۔

بہت سے لوگوں کی جانب سے مریم نواز سے متعلق کہا گیا کہ پیسہ آنے سے پہناوے کا ڈھنگ نہیں آ جاتا تو کسی نے لکھا کہ 'لو بھلا یہ عمر ہے مریم کی ایسے سجنے سنورنے کی۔'

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ تنقید کے ساتھ ساتھ مریم نواز کی خوش لباسی کی تحسین کے پیغامات کی بھی سوشل میڈیا پر بہتات تھی۔

تنقید اور تحسین کے اس دائرے میں سیاسی وفاداریوں کا کتنا کردار تھا، اس پر بحث مقصود نہیں۔ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین سے ایک مخصوص طرز عمل کی توقعات کیوں ہیں؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ انفرادی طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنانا کیوں ضروری ہوتا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

ٹوئٹر کی ایک صارف، جو ڈریگانوو کے نام سے جانی جاتی ہیں، نے مریم نواز کی ایک تصویر پر لکھا کہ 'دو قسم کی ساسیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتی ہیں نارمل جو دلہے کی گریس فل (پروقار) ادھیڑ عمر ماں کی طرح پیش آتی ہیں اور ایک وہ جو چاہتی ہیں کہ دلہن ان کے سامنے پھیکی نظر آّئے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہی ساری تقریب کی نگاہ کا مرکز بنیں۔'

ڈریگانوو نامی اس صارف نے اپنی پہلی ٹویٹ کچھ گھنٹوں بعد حذف کر دی اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھیں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، پاکستانی معاشرے کی اس سوچ کی عکاسی کی جس کے مطابق ادھیڑ عمر خواتین کو ایک مخصوص طرز کا ہی لباس پہننا چاہیئے کیوں کہ یہ عمر اور رشتے کا تقاضا ہوتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@_Dragunov

'خواتین کے لیے مختلف پیمانہ کیوں؟'

اس سوچ کا دوسرا رخ سوشل میڈیا پر ان پیغامات کی شکل میں سامنے آیا جن میں نا صرف مریم نواز کی تعریف کی گئی بلکہ اس سوچ کو بھی نشانہ بنایا گیا جو خواتین اور مرد حضرات کو مختلف پیمانوں سے ناپتا ہے۔

اریبہ شاہد نے لکھا کہ اگر مریم نواز ان تصاویر میں جوان نظر آ رہی ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ وزیر اعظم عمران خان بھی تو بوٹوکس کا استعمال کرتے ہیں۔

'سیاسی اختلافات ایک طرف لیکن ہم خواتین کے لیے مردوں کی نسبت مختلف پیمانہ کیوں رکھتے ہیں؟'

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@AribaShahid

کنول احمد کہتی ہیں کہ کسی کو خواتین کے اچھے دکھنے سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ 'یہ ضروری نہیں کہ ایک خوش لباس عورت کسی سے مقابلہ ہی کر رہی ہو جب وہ دراصل صرف اپنی پسندیدہ لال لپ سٹک لگانا چاہتی ہے۔'

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@kanwalful

صارف مہرین کسانہ نے لکھا کہ مریم نواز نے کم عمری میں شادی کی، اپنا خیال رکھا اور اب وہ ان تصاویر میں لطف اندوز ہوتے نظر آ رہی ہیں تو اس میں برا کیا ہے۔

جب کہ ایشا نے لکھا کہ جب ایک مرد کم عمر خوبصورت لڑکیوں میں توجہ لیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ اس کی بیوی ہے جو اپنا خیال نہیں رکھتی اور جب ایک عورت اپنا خیال رکھے تب بھی اسے ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@mehreenkasana

'کامیاب عورت ایک ڈراونی سوچ نہیں'

خواتین سے متعلق اس بحث کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔

حالیہ دنوں میں اداکارہ اور ماڈل عفت عمر کو سوشل میڈیا پر اپنے لباس کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے جواب میں انھوں نے لکھا کہ لوگوں کو میری عمر کے علاوہ کچھ نظر کیوں نہیں آتا۔ 'میں انچاس سال کی ہوں اور بہت مطمئن ہوں۔'

کچھ ایسا ہی معاملہ اس وقت بھی ہوا جب پاکستانی فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار فردوس جمال نے کچھ عرصہ قبل ایک ٹی وی شو کے دوران اداکارہ ماہرہ خان کے بارے میں کہا کہ ماہرہ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور انھیں اب ہیروئین کے نہیں بلکہ ماں کے کردار ادا کرنے چاہیئیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فردوس جمال کے اس بیان پر بھی پاکستان کی شوبز انڈسٹری اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوا جس پر ماہرہ خان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کسی کو مخاطب کیے بغیر لکھا: 'یہ دنیا نفرت سے بھرپور ہے لیکن ہمیں محبت کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کی رائے کو برداشت کرنا چاہیے۔ ہماری جنگ اس مخصوص سوچ کے خلاف ہونی چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب عورت ایک ڈراؤنی سوچ ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔'