مدثر نارو کیس: ’سارے چیف ایگزیکیٹوز پر آرٹیکل چھ کیوں نہ لگا دیں‘
مدثر نارو اور ان کی اہلیہ صدف
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے لاپتہ ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’لوگوں کے لاپتہ ہو جانے کا ذمہ دار چیف ایگزیکیٹو ہی ہوتا ہے۔۔۔یہاں سابق چیف ایگزیکیٹو لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کریڈٹ لیتے ہیں۔۔۔ایک ہال آف شیم بنا دیتے ہیں جس میں سب چیف ایگزیکیٹو کی تصاویر ہوں۔۔۔لاپتہ افراد پر سارے چیف ایگزیکیٹوز پر آرٹیکل چھ کیوں نہ لگا دیں؟‘
سوموار کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاپتہ صحافی مدثر نارو کے خاندان سے وزیر اعظم عمران خان نے نو دسمبر کو ملاقات کی۔
خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ 'وزیراعظم سمیت ہم سب ان کی فیملی کو سن کر اس میٹنگ میں شرمندہ تھے۔ مدثر نارو نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا کہ انھیں لاپتہ کر دیا جائے۔‘
یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مدثر نارو کے لاپتہ ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ لاپتہ صحافی مدثر نارو کو 13 دسمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے اور اگلی سماعت سے پہلے مدثر نارو کے والدین اور بچے کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کو یقینی بنایا جائے۔
لاپتہ صحافی مدثر نارو کے خاندان سے وزیر اعظم عمران خان نے نو دسمبر کو ملاقات کی
واضح رہے کہ مدثر نارو کو مبینہ طور پر اس وقت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جب وہ 20 اگست سنہ 2018 کو اپنے اہلخانہ کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات ناران اور کاغان گئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور چھ ماہ کا بچہ بھی تھا۔ رواں سال مئی میں مدثر ناور کی اہلیہ صدف چغتائی کا انتقال ہو گیا تھا۔
’لوگوں کے لاپتہ ہونے کا ذمہ دار چیف ایگزیکیٹو ہوتا ہے‘
سوموار کو مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس بات کو سراہتی ہے کہ وزیراعظم نے مدثر نارو کی فیملی سے ملاقات کی لیکن ذمہ دار لوگ اپنا کام کریں تو کسی کو نہیں اٹھایا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس یے کہ 'لوگوں کے لاپتہ ہوجانے کا ذمہ دار چیف ایگزیکیٹو ہی ہوتا ہے۔ یہاں سابق چیف ایگزیکٹو لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کریڈٹ لیتے ہیں۔‘
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ریٹائر ہونے کے بعد سارے کتابیں لکھ کر دیانتدار بن جاتے ہیں۔‘ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان کا عدالت کے سامنے کہنا تھا کہ لوگوں کا لاپتہ ہو جانا پاکستان پر دھبہ ہے، یہ بدقسمتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کے لاپتہ ہونے کی کوئی وضاحت نہیں دے رہا لیکن یہ کیسز موجودہ حکومت کو ورثے میں ملے۔ کئی لوگ جہاد کے نام پر بارڈر کراس کر کے چلے گئے اب وہ بھی لاپتہ افراد کی کیٹیگری میں شامل ہیں۔ مدثر نارو صحافی تھا میں اس کے کیس کو اس کیٹیگری میں نہیں رکھتا۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کمیشن کا جو اصل کام تھا اس نے نہیں کیا۔
انھوں نے ریمارکس دیے کہ ’مدثر نارو کی فیملی تو عدالت آ گئی ہزاروں تو یہاں بھی نہیں آ سکتے۔ ریاست کہیں موجود ہوتی تو متاثرہ فیملی عدالت کیوں آتی؟‘
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 'ہمیں کیوں کہنے کی ضروت پڑتی کہ آپ وزیراعظم کے نوٹس میں لائیں۔ یہاں تمام ادارے آ کر کہتے ہیں ہمیں کچھ پتہ نہیں بندہ کہاں ہے۔‘
'چیف ایگزیکیٹوز پر آرٹیکل چھ کیوں نہ لگا دیں؟'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیے کہ 'لاپتہ افراد پر سارے چیف ایگزیکیٹوز پر آرٹیکل چھ نہ لگا دیں؟ آرٹیکل چھ لگا کر تمام متعلقہ چیف ایگزیکیٹوز کا ٹرائل شروع کرا دیتے ہیں۔ ایک ہال آف شیم بنا دیتے ہیں جس میں سب چیف ایگزیکیٹو کی تصاویر ہوں۔‘
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صرف چیف ایگزیکٹو کیوں، باقی ذمہ داروں کی بھی تصاویر ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ حتمی ذمہ داری چیف ایگزیکیٹو کی ہی ہوتی ہے۔ ’عدالت اس بات کی توقع کر رہی تھی کہ وفاقی کابینہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی کہ یہ پالیسی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
'کچھ بیماریوں کا علاج عوام کے پاس ہوتا ہے'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’یا تو چیف ایگزیکیٹوز ذمہ داری لیں، یا پھر ان کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔ ہمیں ایک فیصلہ تو لکھنے دیں۔ کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرائیں۔‘
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ ' کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلوں سے نہیں ہوتا بلکہ عوام کے پاس ہوتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں۔ ایران میں یہ سلسلہ ایسے ہی رکا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلوں سے بھی علاج ہوتا ہے اگر ذمہ داروں کا تعین کر لیا جائے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’کیا اس شہر سے مقامی انتظامیہ کی مرضی کے بغیر کسی کو اٹھایا جا سکتا ہے؟ ایک بچے کو اٹھایا جاتا ہے واپس آکر کہتا ہے شمالی علاقوں کی سیر پر تھا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہمیں نہیں پتہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں۔ آزاد میڈیا ہوتا تو لاپتہ افراد کے خاندان کی تصویریں روز اخبار میں ہوتی۔‘
عدالت میں موجود وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میڈیا پر دباؤ ہے جو لاپتہ افراد کے خاندانوں کی مشکلات نہیں دکھا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ ریاست میں ہونے والی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وزیراعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں۔
’آپ معاونت کریں، ہم فیصلہ دیتے ہیں'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جب ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات نہیں ہو سکتی۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ ریاست کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ رد عمل واضح اور نظر آنا چاہیے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا ریاستی پالیسی نہیں۔ عدالت تو ایک فیصلہ ہی دے سکتی ہے، آپ معاونت کریں، ہم آرڈر جاری کریں گے۔‘
اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ آئین کی مطابق معاونت کریں، ہم فیصلہ دیتے ہیں، بتائیں آرٹیکل چھ کے تحت فیصلہ دے دیتے ہیں۔ 'عدالت کی معاونت کریں کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟'
اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ ’میں عدالت کی معاونت ضرور کروں گا لیکن مجھے کچھ وقت دیں میں نے ایسا کیس زندگی میں نہیں لڑا۔‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل اور وکلا کو عدالت کی معاونت کے لیے کتنا وقت درکار ہے تو مدثر نارو کی وکیل ایڈوکیٹ ایمان حاضر مزاری نے جواب دیا کہ وہ کل سے عدالت کی معاونت کے لیے تیار ہیں لیکن اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انھیں کچھ وقت درکار ہے جس کے بعد کیس کی مزید سماعت 18 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔