تحریک طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے؟
- عزیز اللہ خان
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
تحریک طالبان پاکستان نے فائر بندی یکطرفہ طور پر ختم کر دی ہے
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے ایک ماہ کی جنگ بندی کے یکطرفہ خاتمے کے بعد سکیورٹی فورسز، پولیس اور انسداد پولیو ٹیم کے ساتھ تعینات اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اگر قانون کی پاسداری نہیں کرے گی تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
موجودہ صورتحال میں مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں:
- اب مذاکرات ختم ہو چکے ہیں؟
- طالبان کی یکطرفہ جنگ بندی کا مطلب حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے؟
- حکومت کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اگر جاری ہیں تو کامیاب ہوں گے؟
- حکومت پھر کوئی بڑی کارروائی کر سکتی ہے؟
جنگ بندی کے خاتمے کے بعد کتنے حملے؟
کالعدم تنظیم کے ترجمان کے بیانات کے مطابق حملے ِخیبر پختونخوا کے علاقوں میں کیے گئے ہیں۔ ان میں یہ دو حملے باجوڑ، دو شمالی وزیرستان اور ایک حملہ ضلع ٹانک میں کیا گیا ہے۔
ان حملوں میں اہلکارروں کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ ضلع باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں چاچا کلے کے مقام پر دو روز پہلے حملے میں دو سکیورٹی اہلکاروں کے ہلاک ہونے کی اطلاع تھی۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دو روز پہلے پولیس موبائل گاڑی پر حملے میں پانچ اہلکار اور ایک راہگیر زخمی ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں انسداد پولیو مہم کے لیے تعینات ٹیم کے ساتھ سکیورٹی کی خدمات سرانجام دینے والے اہلکار کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
پیر کی صبح شمالی وزیرستان اور باجوڑ میں دو علیحدہ علیحدہ حملوں کے دعوے کیے گئے ہیں لیکن ان حملوں کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
اگر ٹی ٹی پی نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو کارروائی ہو گی: وزیر اطلاعات فواد چودھری
طالبان کے بارے میں حالیہ حکومتی موقف
جنگ بندی کا اعلان 9 نومبر کو کیا گیا تھا اور طالبان نے 9 دسمبر کو جنگ بندی کے خاتمے کا یکطرفہ اعلان کیا ہے۔ اس بارے میں حکومت کا موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
البتہ وفاقی وزیر اطلاعات نے اتوار کو ایک اخباری کانفرنس میں کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اگر قانون کے مطابق چلے گی تو ٹھیک ہے ورنہ حکومت ان کے خلاف پہلے بھی کارروائیاں کر چکی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور حکومت کی رٹ برقرار رہے گی اگر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا تو کارروائی ضرور ہوگی۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی کیا کہتے ہیں
مفتی نور ولی نے اعتراف کیا تھا کہ ماضی میں تنظیمی ماضی اخراجات پورے کرنے کے لیے طالبان ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال جیسی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں
جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے فوری بعد تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی کا ایک انٹرویو بھی سامنے آیا ہے۔ اس انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان نے بامقصد مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا اور یہ ’شرعی سیاست کا حصہ ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے دوران کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلح جدوجہد جاری رہے گی اور مذاکرات اگر کامیاب ہوتے ہیں تو آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور اس میں کسی حد تک پیش رفت ہوئی تھی لیکن اچانک ٹی ٹی پی نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔
کیا جنگ بندی کے خاتمے کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے؟
موجودہ صورتحال میں مختلف اندازے سامنے آ رہے ہیں۔ صحافی محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر اس طرح کی تنظیموں کا واحد ہتھیار ان کی مسلح کارروائیاں ہی ہوتی ہیں جس سے وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان بھی جب امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے تو ان مذاکرات کے آخری دنوں میں تشدد کی کارروائیاں بڑھا دی گئی تھیں تاکہ امریکہ پر دباؤ بڑھایا جائے اور وہ ان کے مطالبات تسلیم کر لے۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر موجودہ حالات میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنگ بندی کا خاتمہ کر کے مسلح کارروائیاں شروع کرنے کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانا ہو سکتا ہے۔
سابق سفیر ایاز وزیر کا کہنا ہے کہ انھیں ’زمینی حقائق کا علم نہیں ہے کہ مذاکرات کہاں ہو رہے ہیں، کون کر رہا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس کا تعلق افغانستان سے ضرور ہے۔ اگر افغانستان میں حالات بہتر ہوں گے اور وہاں امن ہوگا تو یہاں حالات بہتر ہو سکیں گے۔‘
یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن چند روز سے افغان طالبان کی جانب سے بھی پاکستان میں نظام حکومت کے بارے میں ایک بیان سامنے آیا ہے۔
اس کے علاوہ افغان طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان ان کے زیر اثر نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بیان مفتی نور ولی کے اس بیان پر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے زیر اثر ہے۔
پاکستان انسٹٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک مذاکرات کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں لیکن ایسے اشارے ہیں کہ بات چیت کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بارے میں ثالثی کے لیے حقانی نیٹ ورک پر سارا انحصار ہے لیکن ایک موقف یہ ہے کہ پاکستان نے مذاکرات شروع کرنے میں جلد بازی کی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ طالبان میں ایسے گروپ بھی ہیں جو ان مذاکرات کے حامی نہیں ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ مذاکرات میں شامل تمام لوگ بھی ان مذاکرات سے متفق ہوں گے۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس معاملے کو پارلیمان میں لے جاتی اور سیاسی اتفاق رائے حاصل کر کے آگے بڑھا جاتا تو بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی تھی۔