آئی ایم ایف کی رعایتی قرضوں کے خاتمے کی تجویز سستے مکانات کے منصوبے پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہے؟

  • تنویر ملک
  • صحافی، کراچی
پاکستان میں عمارتیں

،تصویر کا ذریعہReuters

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام میں سے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کچھ نئی شرائط کا مطالبہ کیا ہے۔

عالمی ادارے کی جانب سے جہاں کچھ شرائط کا مطالبہ کیا گیا ہے جنھیں اگلی قسط کے جاری ہونے سے پہلے پورا کرنا لازمی ہو گا وہیں اس کی جانب سے سٹیٹ بینک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں تعمیرات کے شعبے میں دیے جانے والے رعایتی قرضوں کی سکیموں کو ختم کرے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے رعایتی قرضوں کی ان سکیموں کے خاتمے کو پاکستان کے مالیاتی نظام کے استحکام کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب موجودہ حکومت ملک میں تعمیراتی شعبے کو ترقی دینے کے لیے کوشاں ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں ایک کروڑ نوکریوں کے ساتھ 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ’نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ‘ کا اعلان کیا تھا جس کے تحت کم لاگت والے مکانوں کی تعمیر کے لیے مراعات کا اعلان کیا گیا اور اس کے ساتھ سٹیٹ بینک کے ذریعے نجی بینکوں کو پابند کیا گیا کہ وہ نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں تعمیراتی شعبے کے لیے قرضوں کو حجم بڑھائیں۔

اس سلسلے میں جہاں بینکوں کی جانب سے براہ راست عوام کو تعمیراتی شعبے میں قرضے جاری کیے گئے وہیں حکومت کے کم لاگت کے مکانوں کے منصوبے کے لیے بھی قرضے جاری ہو سکے۔ بینکوں کی جانب سے حکومتی کم لاگت کے مکانوں کی سکیم کے لیے جو قرضے فراہم کیے جاتے ہیں ان میں حکومتی کی جانب سے شرح سود کی مد میں صارفین کو سبسڈی فراہم کی جاتی ہے تاکہ صارفین کو قرضوں کی واپسی بلند شرح سود پر نہ کرنی پڑے۔

مالیاتی اور تعمیراتی شعبوں کے ماہرین آئی ایم ایف کی جانب سے رعایتی قرضے ختم پر زور دینے کو اس شعبے کے لیے منفی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے کی سکیموں کے خاتمے کو آئی ایم ایف کی جانب سے فی الحال لازمی شرط قرار نہیں دیا گیا تاہم انھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ مستقبل میں یہ آئی آیم ایف کی لازمی شرائط کا حصہ بن سکتا ہے۔

بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئی ایم ایف کے رعایتی قرضوں کے خاتمے پر بات کرنے سے انکار کیا تاہم وزارت خزانہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قرضوں پر سبسڈی دینے سے ملک کے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ یہ سبسڈی سٹیٹ بینک کی بجائے حکومتِ پاکستان برداشت کر رہی ہے۔

تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے کی سکیم کیا ہے؟

پاکستان میں تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے سے پہلے اپنے انتخابی منشور میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ’نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ‘ کا اجرا کیا۔ اس منصوبے کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اقتصادی ترقی کا ایک اہم منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق اس وقت ملک میں ایک کروڑ گھروں کی کمی کا سامنا ہے جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اس منصوبے کے ذریعے بےگھر افراد کو مکان فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے ساتھ تعمیراتی شعبے کو ترقی دینا چاہتی ہے تاکہ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکے۔

پاکستان میں سستے مکانات
،تصویر کا کیپشن

وزیراعظم عمران خان نے ملک میں 50 لاکھ نئے مکانات کم آمدن والے طبقے کے لیے تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے

مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کو ترقی دینے اور بے گھر افراد کو مکانوں کی فراہمی کے لیے سٹیٹ بینک نے دو اقدامات اٹھائے۔ جولائی 2020 میں مرکزی بینک نے تجارتی بینکوں کو پابند کیا کہ وہ نجی شعبے میں دیے جانے والے قرضوں کا پانچ فیصد تعمیراتی شعبے کے لیے مختص کریں اس کے ساتھ مرکزی بینک کی جانب سے کیپٹل ایڈکیوسی کا تناسب بھی دو سو فیصد سے سو فیصد کر دیا گیا۔ کیپٹل ایڈکیوسی کسی بینک کے پاس وہ ذخائر ہوتے ہیں جو کسی ڈیفالٹ کے شعبے میں کام آسکیں۔ ’

پاکستان کے سابقہ وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا اگرچہ اب سٹیٹ بینک نے نجی شعبے کو دیے جانے والے والے قرضے میں تعمیراتی شعبے کے لیے قرض کا ہدف سات فیصد کر دیا ہے تاہم یہ پھر بھی دنیا اور خطے کے مقابلے میں کم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں یہ ہدف دس فیصد تک ہے۔

ڈارسن سکیورٹیز میں مالیاتی امور کے امور یوسف سعید نے بی بی سی اردو کو اس سلسلے میں بتایا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے کی سکیم میں حکومت قرض کی واپسی میں سبسڈی دیتی ہے۔

انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 27 لاکھ تک ہاؤسنگ قرضے پر صارفین کو بینک کو اس کی واپسی دو فیصد شرح سود پر کرنی ہے جب کہ اس وقت بینک دس فیصد سے زائد شرح سود پر قرض دے رہے ہیں۔ حکومت شرح سود میں اس فرق کو اپنی جیب سے بینکوں کو ادا کرتی ہے۔ اسی طرح ساٹھ لاکھ اور ایک کروڑ تک کے قرضے پر صارفین کو بالترتیب پانچ اور سات فیصد شرح سود پر پیسے واپس کرنا ہیں اور فرق کو حکومت سبسڈی کی صورت میں پورا کرتی ہے۔

کراچی میں ایک انگریزی اخبار سے وابستہ مالیاتی امور کے سینیئر صحافی شاہد اقبال نے بتایا اس سکیم کے تحت بینک قرض فراہم کرتے ہیں اور مرکزی بینک کے ذریعے حکومت ان کو سبسڈی دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعمیراتی شعبے کی ترقی ایک پارٹی کا انتخابی منشور ہے اس لیے یہ اقتصادی کے ساتھ سیاسی پہلو کا بھی حامل ہے۔

انھوں نے کہا اگرچہ ماضی کی حکومتوں نے بھی تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات دیں تاہم اس حکومت کے انتخابی منشور کا ایک نمایاں اعلان پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک حکومت کو اس میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے تاہم پھر بھی اس میں کچھ کام نظر آیا ہے۔

تعمیراتی شعبے کو قرضوں کی فراہمی کی کیا صورتحال ہے؟

حکومت کے اعلان کے مطابق تعمیراتی شعبے کو رعایتی قرضے دینے اور سٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو نجی شعبے کے لیے قرضے میں پانچ فیصد دسمبر 2021 تک تعمیراتی شعبے میں رکھنے کے بعد اس شعبے کو دیے گئے قرضوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں گذشتہ سال کے اختتام تک تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں کا حجم 355 ارب تک پہنچ گیا جو 2019 کے اختتام پر 150 ارب روپے تھا ۔

دوسری جانب ’میرا پاکستان میرا گھر‘ سکیم کے لیے بینکوں کی جانب سے دیے گئے قرضے کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 31 دسمبر 2021 تک اس سکیم کے تحت 276 ارب روپے تک قرضوں کے لیے درخواستیں دی گئی تھیں جن میں سے 177 ارب روپے کی منظوری دی گئی تاہم سال کے اختتام تک صرف 38 ارب کے قرضے دیے گئے۔

پاکستان میں مزدور

،تصویر کا ذریعہReuters

آئی ایم ایف اور رعایتی قرض

پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب ایک سٹاف رپورٹ بھی جاری کی گئی ہے جس میں دوسرے امور کے ساتھ سٹیٹ بینک سے کہا گیا ہے کہ وہ تعمیراتی شعبے میں اپنی رعایتی قرضوں کی سکیموں کو بند کرے۔

اس کے بارے میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس سے مالیاتی استحکام کو خدشہ لاحق ہے اور ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام اس سلسلے میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ نجی شعبے خاص کر مارٹگیج اور ہاؤسنگ فنانس کو قرض دینے سے جڑے ہوئے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں حکام ایک ورکنگ گروپ بنائیں گے جو مختلف شراکت داروں پر مشتمل ہو گا اور وہ فروری کے مہینے کے آخر تک ایک سٹرٹیجی پیپر تیار کریں گے جو تعمیراتی شعبے کو فنانسنگ کے سلسلے میں رکاوٹوں کو دور کرے۔

یہ بھی پڑھیے

ماہر معیشت اور وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے مطابق سٹیٹ بینک کی جانب بینکوں کے لیے تعمیراتی شعبے کے لیے قرضے کا ہدف فری مارکیٹ اکانومی کے اصولوں کے خلاف ہے اور اس کی وجہ سے مالیاتی استحکام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

انھوں نے اس امکان کو مسترد کیا کہ فوری طور آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی تجویز کے بعد تعمیراتی شعبے کو قرضوں کی صورت میں رعایتیں فوری طور پر واپس ہو جائیں گی تاہم ان کے مطابق ورکنگ گروپ کی جانب سے نظر ثانی کے بعد اس کا طریقۂ کار بدل سکتا ہے۔

وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے رعایتی قرضوں کو ختم کرنے کے بارے میں جو کہا گیا ہے اس کی صحیح تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا ’سب سے سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ان رعایتی قرضوں پر جو سبسڈی دی جا رہی ہے وہ کمرشل بینک یا سٹیٹ بینک نہیں دے رہے کہ جس سے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہو۔‘

مزمل اسلم کے مطابق ’ہاؤسنگ کے لیے رعایتی قرضوں پر سبسڈی حکومت پاکستان دے رہی ہے۔‘

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر قرض لینے والے ڈیفالٹ کر جاتے ہیں اور حکومت کو یہ قرضے واپس دینے پڑیں تو اس سے حکومت کا مالیاتی ڈسپلن خراب ہو نے کا خدشہ نہیں تو اس پر مزمل نے کہا کہ اول تو اس کا کوئی ایسا امکان نہیں اور ابھی تو ہاؤسنگ کے لیے رعایتی قرضوں کی سکیم کا آغاز ہوا ہے اس لیے ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

وزارت خزانہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک سے تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضوں کو ختم کرنے پر جو اصرار کیا گیا ہے وہ ان قرضوں کے خاتمے کی بات نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ادارہ چاہتا ہے کہ یہ سٹیٹ بینک کی بجائے ایک الگ سے قائم ڈویلپنگ فنانشنل انسٹیوٹیشن (ایف ڈی آئی) کرے جس کے لیے بین الاقوامی ادارے نے کہا کہ اس پر کام کیا جائے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک کو تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے ختم کرنے کے اصرار پر جب مزمل اسلم سے پوچھا گیا کیا یہ آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی شرط ہے تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی پیشگی شرط نہیں ہے کہ جسے پورا کرنا لازمی ہوتا ہے بلکہ یہ ایک تجویز ہے۔

آئی ایم ایف کی تجویز کم لاگت مکانوں کے منصوبے کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

مزمل اسلم تو آئی ایم ایف کی اس تجویز کو زیادہ وزن نہیں دے رہے تاہم ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والے رعایتی قرضوں کو رول بیک کرنے کی تجویز پر عمل کیا گیا تو اس کے تعمیراتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

انھوں نے آئی ایم ایف کی جانب سے تعمیراتی شعبے کو رعایتی قرضے دینے سے مالیاتی نظام کو لاحق خدشات کے تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ پوری دنیا میں تعمیراتی شعبے کو رعایتی قرضے دیے جاتے ہیں جس کا مقصد صرف تعمیراتی شعبے کے ذریعے کم لاگت کے مکان بنا کر دینا بے۔

ان کے مطابق تعمیراتی شعبے سے بلاواسطہ اور بلواسطہ چالیس سے پچاس صنعتیں اور شعبے منسلک ہوتے ہیں جو اس شعبے میں ہونے والی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کسی بھی ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتے ہیں۔

شیخانی نے آئی ایم ایف کے اس مشاہدے کو مسترد کیا کہ مرکزی بینک کی جانب سے رعایتی قرضوں کی سکیم کی وجہ سے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ لاحق ہے جس کی وجہ قرض لینے والوں کی جانب سے اس کی واپسی سے پر نادہندہ ہونا ہے۔ انھوں نے کہا اگر اس شعبے میں دیکھا جائے تو قرض ادائیگی کا تناسب نوے فیصد سے زائد ہے جس کی ایک وجہ یہی ہے کہ قرض لینے والا قسطوں کی ادائیگی کے بعد ایک اثاثے کا مالک بن جاتا ہے۔

حکومت کے میرا پاکستان میرا گھر سکیم اور عمومی طور پر تعمیراتی شعبے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی تک یہ تجویز آئی ہے تاہم اگر اس سلسلے میں کوئی مزید پیش رفت ہوتی ہے تو کم لاگت کے مکانوں کی سکیم اس سے شدید طور پر متاثر ہو گی۔

انھوں نے کہا تعمیراتی شعبے سے منسلک افراد جلد وزیر اعظم ملنے والے ہیں اور اس ملاقات میں لازمی طور پر آئی ایم ایف کی یہ تجویز زیر بحث آئے گی۔