کیا انڈین پیاز اور ٹماٹر ہی پاکستان میں سیلاب کے بعد قیمتیں کم کرنے کا واحد حل ہے؟

  • تنویر ملک
  • صحافی، کراچی
پیاز کا کاروبار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سیلاب سے سندھ میں پیاز کی 80 فیصد سے زائد فصل برباد ہو گئی ہے

پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان میں زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں کپاس اور چاول کی فصل کو پہنچنے والے نقصانات کے ساتھ پھل و سبزیوں کے کاشت کے علاقے زیرِ آب آنے سے ان کی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے۔

پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب کے بعد ایک جانب مختلف فصلوں کو نقصان پہنچا تو اس کے ساتھ سیلاب کی وجہ سے راستوں کی بندش کے باعث سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

تمام سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم سب سے زیادہ اضافہ پیاز اور ٹماٹر کی قیمت میں دیکھا گیا جن کہ قیمتیں دو سو سے چار سو فیصد تک بڑھی ہیں۔ پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں پھلوں اور سبزیوں کے درآمد کنندگان اور تاجروں کی جانب سے انڈیا سے ان کی درآمد کی تجویز سامنے آئی ہے۔

اس سلسلے میں تاجروں کی نمائندہ تنظیم نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ دو مہینے کے لیے انڈیا سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی اجازت دی جائے تاکہ اس کی رسد کو بڑھا کر قیمتوں میں استحکام لایا جا سکے۔

انڈیا سے ٹماٹر و پیاز کی درآمد کی تجویز کیوں دی گئی؟

ہمسایہ ملک سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی تجویز وفاقی وزارت تجارت کے اجلاس میں دی گئی جس میں حالیہ بارشوں سے سبزیوں کی پیداوار متاثر ہونے اور مارکیٹ میں قلت کی صورتحال پر غور کیا گیا تھا۔

اجلاس میں پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل امپورٹرز ایکسپورٹرز مرچنٹس ایسوسی ایشن نے مارکیٹ میں استحکام کے لیے فوری طور پر پیاز اور ٹماٹر کی درآمد پر تین ماہ کی مدت کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی چھوٹ کے علاوہ انڈیا سے بھی ان دونوں سبزیوں کی درآمد کی اجازت کی تجویز دی۔

ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف وحید احمد کا کہنا ہے کہ ’سیلاب سے سندھ میں پیاز کی 80 فیصد سے زائد فصل برباد ہو گئی جبکہ ٹماٹر کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی پیاز کے سیزن کے دوران طوفانی بارش اور سیلاب سے فصل تباہ ہوئی ہے۔‘

سندھ سیلاب
،تصویر کا کیپشن

پاکستان میں سیلاب سے سندھ میں سبزیوں کی پیداوار دینے والا بہت بڑا علاقہ زیرِ آب آیا ہوا ہے

مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

انھوں نے کہا ملک میں پیاز اور ٹماٹر کی طلب پوری کرنے کے لیے یہ سبزیاں انڈیا سے بھی درآمد کرنا ہوں گی۔

انھوں نے کہا آلو کی فصل تیار ہو کر پہلے ہی گوداموں میں پہنچ چکی ہے اس لیے اس کی درآمد کی ضرورت نہیں جبکہ دوسری سبزیاں جیسے کہ بینگن، توری ، بھنڈی وغیرہ کی درآمد کی ضرورت اس لیے نہیں کیونکہ ایک تو ان کے خراب ہونے کا خطرہ ہے دوسری جانب پاکستان میں ان کی پیداوار متاثر ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی جبکہ اس کے برعکس پیاز اور ٹماٹر کی پوری فصل ہی متاثر ہوئی ہے۔

وحید احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ دیگر ملکوں سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمد کے لیے منگل سے سودے طے کرنا شروع کر دیے جائیں گے تاہم انڈیا سے درآمد کی اجازت ابھی نہیں ملی۔

پاکستان میں تجارت کے لیے وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق ابھی تک کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا اور وہی فیصلہ کیا جائے گا جو ملک کے فائدے میں ہو گا۔‘

وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے بھی منگل کو سیلاب زدگان کے لیے حکومتِ پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی ہنگامی اپیل کے اجرا کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال انڈیا سے تجارت کی بحالی پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے پیر کو ایک ٹویٹ میں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر دکھ کا اظہار کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی پاکستان میں جلد ہی حالات معمول پر آ جائیں گے۔

بی بی سی کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق وزیر اعظم مودی کے اظہار ہمدردی کے بعد انڈیا میں بعض حلقوں میں یہ بات ہو رہی ہے کہ کیا انڈیا کو ان مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔

معروف انڈین تجزیہ کار نروپما سبرا منین نے ٹوئٹر پر اس بارے میں لکھا کہ 2010 میں پاکستان میں سیلاب کے دوران انڈیا نے اقوام متحدہ کے پاکستان ایمرجنسی فنڈ میں دو کروڑ ڈالر اور عالمی فوڈ پروگرام کے ذریعے بھی پچاس لاکھ ڈالر دیے تھے تو کیا انڈیا اس بار بھی مشکل کی گھڑی میں پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئے گا؟

خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کا سلسلہ اگست 2019 سے بند ہے جب پاکستان نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر ردعمل دیتے ہوئے انڈیا سے تجارت پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی جو تاحال برقرار ہے۔

کیا درآمدی ٹماٹر و پیاز سے قیمتیں کم ہو سکتی ہیں؟

پاکستان میں ٹماٹر و پیاز کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سیلاب کی وجہ سے ان کی متاثر ہونے والی پیداوار ہے جس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں پیاز کی ماہانہ کھپت 150000 ٹن اور ٹماٹر کہ ماہانہ کھپت 50000 ٹن ہے جبکہ سیلاب کے بعد ہول سیل مارکیٹ میں پیاز کی قیمت میں 100 سے 150روپے اور ٹماٹر کی قیمت میں 200 سے 250 روپے کا اضافہ دیکھا گیا

سیلاب

،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock

لائن

وحید احمد کا کہنا ہے کہ اگر درآمدی پیاز اور ٹماٹر نہیں آیا تو ان قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ انھوں نے کہا پنجاب اور سندھ میں ٹماٹر اور پیاز کی فصل نقصان ہوا اور اگر محدود مدت کے لیے انڈیا سے درآمد کھول دی جائے تو اس کا فائدہ قیمت میں کمی کی صورت میں ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ انڈیا سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق اس وقت وہاں ٹماٹر و پیاز کی پیداوار اضافہ ہے اور ایک کلو ٹماٹر 15 روپے میں دستیاب پے جو درآمد اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے بعد بھی پاکستان میں بہت سستا ملے گا۔

پھلوں و سبزیوں کے تاجر سلیمان خواجہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا سے درآمد کے بعد ٹماٹر اور پیاز کی قیمت میں زیادہ بڑی کمی واقع ہو سکتی ہے کیونکہ ایران سے پیاز آنے کے بعد قیمت میں کچھ کمی آئی ہے اور اگر انڈیا سے بھی پیاز اور ٹماٹر آتے ہیں تو قیمت مزید کم ہو سکتی ہے۔

Vegetable vendors sell onions .

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

پاکستان میں ٹماٹر و پیاز کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سیلاب کی وجہ سے ان کی متاثر ہونے والی پیداوار ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سیلاب کا پانی اترنے کے 50 سے 90 دن کے بعد زمین خشک ہوتی ہے اور پھر قابل کاشت بن سکتی ہے۔ اس وقت تک ٹماٹر و پیاز کی فصل کی بوائی نہیں ہو سکتی اور اس دوران صارفین کو قیمت میں کمی کا فائدہ صرف سبزیوں کی درآمد سے ہی مل سکتا ہے۔

اس صورتحال میں ایک سوال یہ بھی گردش کر رہا کہ کیا سبزیوں کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ کیا صرف رسد میں کمی ہے یا اس میں ذخیرہ اندوزی کا بھی عمل دخل ہے۔

اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کراچی سبزی منڈی میں ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین زاہد اعوان کا کہنا تھا کہ سبزی اور پھل کی قیمت میں بڑے اضافے کی اصل وجہ تو سیلاب کی وجہ سے فصلوں کی تباہی ہی ہے کیونکہ جن علاقوں میں سبزیاں اور فصلیں بچ بھی گئیں وہاں سے ان کی ترسیل میں اس وقت بڑی مشکلات حائل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال میں ریٹیلرز کی جانب سے بھی ناجائز منافع کمایا جا رہا ہے تاہم بلیک مارکیٹ کا کام سبزی اور فروٹ میں بہت کم ہو سکتا ہے کیونکہ سوائے آلو اور سیب کے کسی سبزی اور پھل کو زیادہ عرصہ گوداموں میں نہیں رکھا جا سکتا۔