ضمنی انتخابات: پارٹی ٹکٹس پر اختلافات

ضمنی انتخابات کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا کے کچھ حلقوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے لیکن
جماعت کے فیصلوں پر اس کے اپنے ہی کارکنوں نے تنقید بھی شروع کردی ہے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کو ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن پارٹی نے انتخابات سے پہلے جو وعدے اور دعوے کیے تھے ان پرکسی بھی سطح پر عملدآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات کے لیےبھی پی ٹی آئی امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی نامزدگی کے وقت امیدواروں کی قابلیت نہیں دیکھی گئی جس کی وجہ سے اب اس جماعت کو حکومتی معاملات چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں اب ضمنی انتخابات کے لیے کچھ حلقوں کے لیے امیدواروں کو نامزد تو کر دیا گیاہے لیکن قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون کے لیے جماعت کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
تحریک انصاف کے ایک رہنما عرفان سلیم نے ٹکٹ دینے میں جماعت کے فیصلے پر تنقید کی ہے اور ایک اخباری کانفرنس میں الزام عائد کیا ہے کہ جس امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا ہے اس کے لیے میرٹ کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر کارکنان نے سلیم جان کی حمایت کی تھی لیکن قیادت نے کارکنوں کے مطالبے کو ٹھکرا دیا۔
عرفان سلیم نے کہا کہ گل بادشاہ بنیادی طور پر ایک افغان شہری ہیں اور ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ کنڑ سے ہے۔
اس بارے میں متعلقہ امیدوار گل بادشاہ سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ انیس سو چھیانوے میں پارٹی کے قیام کے وقت سے اس کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور یہ کہ وہ دو مرتبہ یونین کونسل کے ناظم رہ چکے ہیں جبکہ انہوں نے تعلیم پشاور کے سپیرئیر سائنس کالج سے حاصل کی ہے ۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف نے حلقہ این اے پانچ کی ٹکٹ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے داماد کو دے دی ہے ۔ پارٹی قیادت کے اس فیصلے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے بھی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی رشتہ دار خواتین کو ترجیح دی گئی تھی۔
تحریک انصاف اب تک حزب اختلاف کی ایک جماعت کے طور پر احتجاج اور دھرنوں کی سیاست میں رہی ہے مگر اب یہ پہلا موقع ہے کہ اس جماعت کو صوبے کی سطح پر اقتدار ملا ہے جس کا اسے کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ قائدین کو شائد اب علم ہو گیا ہوگا کہ عملی سیاست اور صرف تنقید کرنے کی سیاست میں کتنا فرق ہے؟
گل بادشاہ کون ؟
گل بادشاہ کے بارے میں جماعت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ سنہ دو ہزار سات کے بعد سے اب تک پارٹی کی سرگرمیوں میں کافی متحرک رہے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کب اختیار کی تھی؟ گل بادشاہ اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
جماعت کے اندر ہونے والے انتخابات میں وہ ٹاؤن ون کے صدر منتخب ہوئے تھے اور گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران وہ این اے پشاور ون کی نشست پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی انتخابی مہم کے سربراہ تھے۔ وہ جماعت کی انتظامی کمیٹی کے رکن اور پشاور شہر کی تنظیم کے سینئیر نائب صدر رہ چکے ہیں۔
گل بادشاہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ افغان شہری ہیں اور افغانستان پر روسی حملے کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا تھا۔ لیکن اس بارے میں گل بادشاہ کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان کوئی دو سو سال پہلے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ وہ مہمند قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان کے شہری ہیں۔