پشاور: نومولود بچوں کے اغوا میں ملوث گروہ گرفتار

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس نے نرسوں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز پر مشتمل ایسے گروہ کو گرفتار کیا ہے جو نجی اور سرکاری ہسپتالوں سے نومولود بچوں کو اغوا کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
جمعے کو پشاور کے ایس ایس پی عباس مجید مروت نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ انھوں نے اب تک سات افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں ایک نرس دو لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دو آیاؤں کے ساتھ ساتھ دو مرد شامل ہیں ۔
یہ گروہ پشاور نوشہرہ مردان اور اسلام آباد کے علاوہ دیگر شہروں میں قائم سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے علاوہ میٹرنٹی ہومز کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔
پولیس کے مطابق جب کسی ہسپتال میں مردہ بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے سرد خانے میں محفوظ رکھ دیا جاتا تھا اور اس کے بعد جب کسی عورت کے ہاں زندہ بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے سرد خانے سے نکال کر مردہ بچے سے تبدیل کردیا جاتا تھا اور اس عورت کو یہ تسلی دی جاتی تھی کہ ان کا بچہ مردہ پیدا ہوا ہے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ اس گروہ نے اب تک نو بچے فروخت کیے ہیں اور ان نومولود بچوں کو 70 ہزار روپے سے لے کر تین لاکھ روپے تک میں فروخت کیا جاتا ہے۔
ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس بارے میں ہسپتال انتظامیہ سے اور پھر دیگر ذرائع سے خفیہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں جس پر پولیس نے کام شروع کر دیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ایک خاتون نرس کو پشاور کے ہشتنگری کے علاقے سے گرفتار کیا جس نے اس گروہ کے دیگر افراد کے نام بتائے جنھیں بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ان میں پانچ خواتین اور دو مرد شامل ہیں۔
حکام کے مطابق اس گروہ میں مزید کچھ لوگ بھی شامل ہیں اور گرفتار افراد گروہ کے اراکین کی کل تعداد 15 بتا رہے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ گرفتاری کے وقت بھی ایک بچی کو فروخت کرنے کی ڈیل جاری تھی جسے ناکام کرکے بچی کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔
پولیس نے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا کہ کن خواتین کو کتنی رقم میں بچے فروخت کیے گئے ہیں۔ اس گروہ میں نرس اور آیا بچوں کے اغوا اور ان کی فروخت میں پیش پیش رہیں۔
پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں ان دنوں بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ صوبہ پنجاب میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران چھ سو سے زیادہ بچے لاپتہ ہوئے جن میں پولیس کے مطابق کچھ خود گھروں سے بھاگ کر گئے ہیں اور کچھ کو اغوا کیا گیا ہے۔