![]() | ![]() | ![]() | ![]() | ![]() | ![]() | ![]() | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
![]() | ![]() | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
بندہ پیش کریں ورنہ جیل جائیں:چیف جسٹس | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چودھری نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو لاپتہ شخص حافظ عبدالباسط کو پیش کرنے کے لیے دی گئی مہلت میں اٹارنی جنرل کی یقین دہانی اور درخواست پر منگل کی صبح تک اضافہ کر دیا ہے۔ تاہم عدالت نے کہا ہے کہ اگر کل یعنی منگل کو حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا تو ڈی جی ایف آئی اے کو جیل جانا ہوگا۔ اس سے قبل عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ اگر موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے طارق پرویز جو حافظ عبدالباسط کی گمشدگی کے وقت اے آئی جی پنجاب تھے اگر حافظ باسط کو عدالت کے سامنے پیرکی شام تک پیش کرنے میں ناکام رہے تو انہیں باسط کی بازیابی تک اڈیالہ جیل بھیج دیا جائے۔ تاہم سماعت کے دوران پیر کی شام کو اٹارنی جنرل ملک قیوم عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ سے ذاتی طور پر بات کر کے منگل کو عدالت کو یہ بتائیں گے کہ حافظ عبدالباسط کہاں ہے۔ اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے چار رکنی بنچ نے پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے طارق پرویز کو حافظ عبدالباسط کی گمشدگی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپشن ان کے پاس یہی ہے کہ یا تو وہ’بندہ پیش کریں ورنہ جیل جائیں‘۔ جب طارق پرویز عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ انہوں نے کس قانون کے تحت ایک گرفتار شدہ شخص کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کی بجائے کسی اور ادارے کے حوالے کر دیا۔ سماعت کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی حافظ عبدالباسط کا نام ممکنہ طور پر صدر پرویز مشرف پر حملوں کے حوالے سے بھی لیا جاتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی حملے میں ملوث ہے تو اس پر قانون کے مطابق مقدمہ کیوں نہیں چلایا جا رہا۔ حافظ عبدالباسط کے بارے میں فیصل آباد پولیس کا موقف ہے کہ انہوں نے عبدالباسط کو پنڈی بھٹیاں موٹر وے انٹرچینج پر ملٹری انٹیلیجنس کے کیپٹن عامر نامی شخص کے حوالے کر دیا تھا جبکہ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف نام سے کسی بھی فوجی افسر کو ڈھونڈنا ناممکن ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نےفوج کی حراست میں موجود عمران منیر نامی شخص کو فوری طور پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ عمران منیر ایک پاکستانی نژاد ملائشین شہری ہیں اور جون میں لاپتہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو حکام نے بتایا تھا کہ انہیں فوجی عدالت کی جانب سے جاسوسی کے جرم میں آٹھ برس قید کی سزا سنائی جا چکی ہے اور وہ ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں قید ہیں۔تاہم عمران کے والد اور وکلاء کا موقف ہے کہ یہ سزا عمران کو جاسوسی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک فوجی افسر کی رشتہ دار خاتون سے محبت کرنے کی پاداش میں ملی ہے۔ پیر کو سماعت کے دوران ایک اور لاپتہ شخص مسعود جنجوعہ کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی ریکارڈ میں موجود عمران منیر کی ڈائری میں یہ تحریر ہے کہ انہوں نے مسعود جنجوعہ کو دورانِ حراست دیکھا تھا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عمران منیر کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ ان سے پوچھا جا سکے کہ انہوں نے مسعود جنجوعہ کو کب اور کہاں دیکھا۔ چیف جسٹس کے حکم پر حکام نے عدالت کو بتایا کہ عمران منیر اس وقت منگلا میں موجود ہیں اور انہیں فوری طور پر عدالت لانا ممکن نہیں تاہم چیف جسٹس نے انہیں پہلے پیر کو اور بعدازاں عدالتی کارروائی کے اختتام پر عمران منیر کو اڈیالہ جیل میں رکھنے اور منگل کی صبح عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ حکام نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ منگلا میں عمران منیر کا دوبارہ کورٹ مارشل کیا جا رہا کیونکہ ان کی پہلی سزا ملٹری ایپلٹ کورٹ نے انہیں مرضی کا وکیل نہ فراہم کیے جانے کی بنیاد پر ختم کر دی تھی۔
دورانِ سماعت پاکستانی نژاد جرمن باشندے علیم ناصر کی گمشدگی کے معاملے پر عدالت کو بتایا گیا کہ علیم کی والدہ سے ان کی ملاقات کروائی گئی ہے اور ان کے خلاف فاٹا میں کیس رجسٹر ہے۔ اس پر جج نے ملاقات کا انتظام کروانے والے آئی ایس آئی کے کرنل زکریا اور علیم ناصر کی عدالت میں پیشی کا حکم دیا۔ اس پر عدالت میں موجود آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ کرنل جاوید اقبال لودھی نے جب عدالت سے کہا کہ ان کا مذکورہ کرنل سے رابطہ نہیں ہوا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی عدالت میں بلایا جائے۔ سماعت کے دوران حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل جان محمد، سلیم بلوچ اور منیر مینگل نامی افراد کا پتہ چل چکا ہے۔ تاہم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نمائندہ عاصمہ جہانگیر نے ان افراد کی برآمدگی کی تصدیق سے انکار کر دیا۔ تاہم ایک اور لاپتہ شخص نعیم نور خان کے وکیل نے بتایا کہ نعیم کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ اپنےگھر پہنچ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ نعیم نور خان کے متعلق حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ القاعدہ کے کمپیوٹر شعبے کے انچارج تھے۔ مقدمے کی سماعت منگل کو بھی جاری رہے گی۔ | ![]()
اسی بارے میں ![]() 04 July, 2007 | پاکستان ![]() 25 June, 2007 | پاکستان ![]() 20 June, 2007 | پاکستان ![]() 06 June, 2007 | پاکستان ![]() 04 May, 2007 | پاکستان ![]() 25 May, 2007 | پاکستان ![]() 08 December, 2004 | پاکستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|