کیرالہ میں ’کتوں کا قاتل‘
انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں رواں سال کتوں کے کاٹنے کے سات سو سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس کے جواب میں بعض افراد آوارہ کتوں کو مارنے کی مہم چلانے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
تاہم اس مہم پر جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
اشرف پدانا کی ایسے ہی ایک ’کتوں کے قاتل‘ سے ملاقات ہوئی۔
ایک وزیر کے مطابق کیرالہ میں پانچ لاکھ سے زائد آوارہ کتے موجود ہیں جس کے باعث کتوں کے کاٹنے کے واقعات مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔
گذشتہ اگست میں ایک معمر خاتون ایسے ہی ایک واقعے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ ان پر ایک آوارہ کتے نے حملہ کر دیا تھا جس پر ریاست میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
کیا انڈیا میں شدت پسند حملوں سے زیادہ لوگ آوارہ کتوں کے کاٹے سے مرتے ہیں؟
’کتا مار گروپ‘ چلانے والے ہوزے مویلی ’کتوں کے خوف‘ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کا طریقۂ کار متنازع ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں ساتھ ایک ایئر گن رکھتے ہیں تاکہ کتوں سے اپنی حفاظت کر سکیں۔
مویلی نے بتایا کہ ’میں یہ گن صرف اپنے دفاع کے لیے رکھتا ہوں کیونکہ یہاں پہلے ہی کتوں کے حملوں کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ یہ گن صرف کتوں کو ڈرانے کے لیے ہے۔ اس میں برا کیا ہے؟‘
انھیں کتوں کے خلاف مظالم کے زمرے میں سات مقدمات کا بھی سامنا ہے اور وہ فی الحال ضمانت پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے گلیوں میں گھومنے والے آوارہ کتوں کو مارنے والوں کو پانچ سو روپے دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔
مویلی نے بتایا کہ ’میں اب تک تقریباً 50 لوگوں کو پیسے دے چکا ہوں۔‘
ان پر جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون کارکن کو دھمکانے کا بھی مقدمہ ہے۔
مویلی کی اس مہم سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کئی دیگر لوگ بھی قانون توڑنے کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ ضلع پالاکڑ، ایرناکلم اور کوٹیم میں کتے مارنے والے افراد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ کیرالہ کانگریس (مانی) کے یوتھ ونگ نے ایک درجن کے قریب کتوں کو مار کر کوٹیم میونسپل دفتر کے باہر لٹکا دیا تاکہ ریاستی انتظامیہ کی جانب سے ’کتوں کی آبادی کو روکنے میں ناکامی پر توجہ مرکوز کروائی جا سکے۔‘
ایک اور حالیہ واقعے میں کیلاڑی گاؤں کی کونسل کے 17 ارکان نے 30 کتے مارے۔
آج کل لوگوں کی جانب سے مارے جانے والے کتوں کی خون آلودہ تصاویر تقریباً ہر اخبار اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
ہوزے مویلی ایک یتیم خانہ بھی چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ تب تک قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے رہیں گے جب تک کتے خواتین، معمر افراد اور سکول جانے والے بچوں پر حملے کرتے رہیں گے۔‘
ان کے مطابق: ’حکومت لوگوں کو ان کتوں کو مارنے کی اجازت دے جو ان کی جان کے لیے خطرہ ہیں۔‘
ہوزے مویلی کو کئی نامور شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے۔ لیکن جانورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ان کی اس مہم سے اتفاق نہیں کرتے۔
جانورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ جانوروں کی پیدائش کو کنٹرول کرنے پر کام کرے تاکہ گلیوں میں گھومنے والے آوارہ کتوں کی آبادی میں کمی ہو۔
وزیر مملکت کے ٹی جلیل کا کہنا ہے کہ ’حکومت اس پر کام کر رہی ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ کتوں کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔‘
کتوں کو پکڑنے والوں کی قلت بھی اس کام میں بڑی رکاوٹ ہے۔