'تاب لائے ہی بنے گی غالب'

مکہ مسجد، مالے گاؤں، اکشر دھام، ممبئي، دہلی، بنگلور، حیدرآباد کہیں بھی کوئی دھماکہ ہو انڈیا کے مسلمانوں میں سراسیمگي پھیل جاتی ہے۔
فون کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی ہیں، مائیں اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کرتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہر دھماکے کے بعد عام طور پر میڈیا میں مسلمانوں کا نام آتا ہے۔
تاہم ملک کے مسلم نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں اور وہ دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔
حیدرآباد کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ رخسار انجم کہتی ہیں: 'ہم دہشت گردی کی کسی طرح حمایت نہیں کرتے ہیں۔ یہاں دہشت گردی میں مسلمانوں کا نام شامل کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا دہشت گردی سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔'
حیدرآباد کے ہی قدیم شہر سے تعلق رکھنے والے نوجوان عبدالعظیم خان نے کہا کہ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے اس میں مسلمانوں کا نام سامنے آتا ہے: 'پہلے ان کا نام آئي ایس آئی سے جوڑا جاتا تھا، پھر انڈین مجاہدین سے جوڑا گیا، پھر سیمی (سٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف آنڈیا) کے نام سے اور اب آئی ایس (دولت اسلامیہ) کے نام سے جوڑا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حیدرآباد سے سات بچوں کو اٹھا لیا گيا اور ان کا تعلق آئی ایس سے بتایا جا رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش ہے۔'
ایک اور طالب علم دانش خان کا خیال تھا کہ 'مسلمانوں کا نام دہشت گردی سے جوڑا جانا غلط ہے۔ دہشت گردی کا کوئي مذہب نہیں اور اسے کسی مذہب سے جوڑنا درست نہیں۔'
انھوں نے مزید کہا: 'کئی واقعات میں دوسرے مذاہب کا بھی نام آيا ہے جیسے سادھوی پرگیا۔ اسیمانند، کرنل پروہت اور انھیں قید بھی ہوئی۔ اس لیے دہشت گردی کو مسلمانوں جوڑنا درست نہیں۔'
سنہ 2007 میں حیدرآباد شہر کے قلب میں چار مینا کے پاس مکہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد حراست میں لیے جانے والے ڈاکٹر ابراہیم جنید نے بتایا کہ ان کے ساتھ سو لڑکوں کس طرح اٹھایا گیا اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا دہشت گردی سے تعلق نہیں لیکن انھوں نے 'پولیس کی دہشت گردی ضرور دیکھی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ 'حراست میں لیے جانے کے بعد وہاں پہلے سے ایک کہانی تیار ہوتی ہے جسے آپ کو تسلیم کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔'
حیدرآباد کی ایک یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر عبد القادر صدیقی کا خیال ہے کہ 'اسلام میں دہشت گردی نہیں ہے اور جو اس نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ مسلمان نہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’دولتِ اسلامیہ جو کچھ کر رہی ہے اس سے اسلام کا چہرہ بگڑ رہا ہے اور اس کے بعد اسلام کے چہرے کو سنوارنے میں سو دو سال لگ جائيں گے۔'
اسی یونیورسٹی کی ایک طالبہ صبا انجم تسلیم کرتی ہیں کہ انڈیا میں یا دنیا کے دوسرے ممالک میں دہشت گردی ہے لیکن اسے کسی مخصوص فرقے سے جوڑنا غلط ہے۔
وہ کہتی ہیں: 'یہ مسلمانوں کے خلاف مفاد پرستوں اور سیاست دانوں کا پروپیگنڈہ ہے۔ دوسرے فرقے میں مسلمانوں کی غلط تصویر پیش کی جار رہی ہے۔‘
صبا کا کہنا تھا کہ ’کسی ایئرپورٹ پر اگر کوئی مسلمان ڈارھی والا ہے تو اس کی دوبارہ چیکنگ کروائي جاتی ہے ۔۔۔نوجوان نسل کے سامنے یہ بہت بڑا خطرہ ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں بہت مشکلات درپیش ہیں۔'
بعض دیگر نوجوان کا خیال تھا کہ حکومت کسی کی بھی ہو مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی نہیں آئی ہے اور انھیں اسی طرح شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
٭ انڈیا کے نوجوان مسلمانوں کے خدشات پر بی بی سی اردو کی خصوصی سیریز ’نائی کی دکان سے چائے کی دکان` تک ہر پیر کو پیش کی جائے گی۔