انڈیا کی دھتکاری ہوئی بیویاں
- زیک ایڈسینا، اؤانا ماروشیو اور سید فیاض
- بی بی سی انسائیڈ آؤٹ، لندن
اس خفیہ میٹنگ میں شامل بیشتر خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی یا اِن کے شوہر انھیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں
چندی گڑھ میں ایک خفیہ مقام پر ایک خاص میٹنگ جاری ہے۔ پورے پنجاب سے خواتین صوبائی دارالحکومت آئی ہیں تاکہ وہ امانجوت کور راموولیہ سے مدد لے سکیں۔
امانجوت کور راموولیہ اس خیراتی ادارے کی سربراہ جو ان خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتا ہے جن کو ان کی غیر ملکی شہریت کے حامل شوہر اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
امانجوت کور کے اندازے مطابق پورے صوبے میں 15000 سے زیادہ خواتین ہیں جو اسی مصیبت میں گھری ہوئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ مہینے میں تقریباً 15 عورتوں سے ملتی ہیں اور ہر ماہ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
’میں بہت سی خوبصورت، پڑھی لکھی خواتین کو دیکھتی ہوں جو اس وقت بہت برے حالات میں ہیں۔ ان کو ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے شرم آتی ہے جہاں ان کے شوہر انھیں چھوڑ کے چلے گئے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے۔‘
پیسہ پیار سے زیادہ پیارا
ان خواتین کے شوہر دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں بڑی تعداد ان ممالک کی ہے جہاں جنوبی ایشائی ممالک کے باشندے رہائش پذیر ہیں جیسے برطانیہ، امریکہ یا کینیڈا۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایک تہائی مردوں کا تعلق برطانیہ سے ہے۔
یہ خواتین ان مردوں سے شادی کرنے پر اس لیے راضی ہو جاتی ہیں تاکہ وہ باہر اچھی زندگی گزار سکیں لیکن ان کے شوہروں کا شادی کرنے کا مقصد پیار سے زیادہ پیسہ ہوتا۔
امانجوت کور نے کہا کہ: 'جو مرد یہاں آتے ہیں شادی کے لیے وہ پہلے بہت سا جہیز مانگتے ہیں۔ پھر شادی کر کے ہنی مون کے مزے لیتے ہیں اور دوبارہ لوٹ کر نہیں آتے۔'
انڈیا میں روایتی طور پر عورت کے خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لڑکے کے خاندان کو تحفے تحائف اور پیسے دے لیکن یہ رواج 1961 میں پاس کیے گئے قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔
اس خفیہ میٹنگ میں ایک عورت پنجاب کے دور دراز گاؤں سے آئی تھی۔ کمل جیت کور نے اٹلی کے ایک باشندے سے تین سال قبل شادی کی تھی لیکن شادی کے کچھ ماہ بعد ہی وہ کمل جیت کو چھوڑ کر چلا گیا۔
کمل جیت اس شخص کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ ’شادی کے کچھ عرصے بعد ہی اس نے جہیز کے بارے میں شکایات شروع کر دی تھیں۔ اس نے کہا کہ میرے گھر والے تم سے خوش نہیں ہیں۔‘
امانجوت کور راموولیہ ان خواتین کے ساتھ گزشتہ دس سالوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں
کچھ عرصے کے بعد کمل جیت کے شوہر نے خاندانی مکان چھوڑ دیا اور واپس اٹلی چلا گیا۔ اس کے بعد سے کمل جیت کی اپنے شوہر سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔
کمل جیت کی بیٹی کو پیدائش کے ساتھ ہی صحت کے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے سسرال والوں نے قطعی مدد نہ کی۔
’انھوں نے کہا کہ میری بیٹی معذور پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں تم سےکچھ نہیں لینا دینا اور ہمارا تعلق اب ختم۔‘
کمل جیت کی بیٹی کچھ ماہ بعد فوت ہو گئی لیکن اس کے شوہر نے پھر بھی اس سے رابطہ نہیں کیا۔
16 سال سے پھنسی ہوئی ہوں
انڈیا میں غیر ملکی شخص سے طلاق حاصل کرنا نہایت مشکل اور مہنگا کام ہے اور جس کی وجہ سے لڑکی اور اس کے خاندان دونوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
درشن کی بیٹی کی شادی 1997 میں ہوئی تھی لیکن اس کے خاندان والے ابھی تک نہیں جانتے کے اس کا اختتام ہوا ہے یا نہیں۔
'اس نے جانے سے پہلے کچھ بولا ہی نہیں تھا۔ بس اس نے یہ کہا کہ میں نے باہر شادی کی ہوئی ہے اور میرا ایک بیٹا اور بیٹی ہے چناچہ میں تمہاری بیٹی کو نہیں لے جا سکتا۔ تمہاری جو مرضی ہو کرو۔'
درشن نے مزید کہا: 'ہم نے قانونی کاروائی کی لیکن ہم اس مصیبت میں 16 سال سے پھنسے ہوئے ہیں۔'
دلجیت کور نان ریذیڈنٹ انڈین کمیشن آف پنجاب کی وکیل ہیں اور وہ غیر ملکی افراد کے خلاف قانونی کاروائی میں مدد کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا: 'ہمارا قانونی نظام کافی سست ہے اور ایک فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ ان معاملات میں کافی دشواریاں ہیں اور اکثر ان خواتین کے پاس قانونی فیس جمع کرانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔
امانجوت کور کے مطابق ان خواتین کو جب ان کے شوہر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے
شرمندگی کی زندگی
چندی گڑھ میں تپتے سورج کے نیچے امانجوت کور وہاں موجود کئی خواتین کو مشورے دے رہی ہیں جو ایک جیسے مسائل سے گزر رہی ہیں۔
لیکن جو مدد وہ فراہم کر رہی ہیں وہ زیادہ نہیں ہے۔ انڈیا میں رہتے ہوئے اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو چھوڑ دے تو وہ قانون کی زد میں آسکتا ہے لیکن جو فرد ملک سے چلا جائے اس کے بارے میں کچھ کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا ان کے پاس آنے والی خواتین جو قصے سناتی ہیں وہ انتہائی ہولناک ہیں۔
’ایک لڑکی کی شادی ہوئی اور اس کے شوہر نے اس کے ساتھ ریپ کیا اور اس کو حاملہ بنا کر چھوڑ دیا اور ہمارے پاس کوئی قانون نہیں ہے جو ایسے کاموں کو روک سکے یا ان کے خلاف کوئی کاروائی کرے۔ اب اس لڑکی کو ساری زندگی اسی خفت کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہوگی کہ اس کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔‘
امانجوت کور کہتی ہیں کہ دوسرے ممالک کو چاہیے کہ وہ انڈین حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور ان افراد کو پکڑنے میں مدد کریں۔
اس وقت تک یہ دھتکاری ہوئی بیویاں اسی ذہنی دگرگوں حالت میں زندگی گزاریں گی۔