انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جنگ کی افواہوں سے لوگ خوفزدہ
- ریاض مسرور
- بی بی سی اردو سروس، سری نگر
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں علیحدگی پسند گروپوں کے خلاف بڑے پیمانہ پر کریک ڈاون میں سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حریت کانفرنس کے رہنما یاسین ملک، دفاع جمعیت اہلحدیث کے مبلغ مشاق ویری اور جماعت اسلامی کے امیر حمید فیاض سمیت ڈیڑھ سو سے زیادہ علیحدگی پسند کارکنوں اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں کو گزشتہ جمعہ کی شب گھروں سے گرفتار کرلیا گیا۔
اس دوران انڈیا کی حکومت نے بیس ہزار نیم فوجی اہلکاروں کی اضافی نفری بھی وادی میں تعینات کردی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سرینگر کے ایک تاجر عمران مرتضی نے بی بی سی کو بتایا: ’حکومت نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیے جب پلوامہ حملہ کی وجہ سے وادی میں پہلے ہی کشیدگی پائی جا رہی تھی اور سپریم کورٹ میں دفعہ پینتیس اے کی سماعت طے تھی۔ مجھے لگا یا تو جنگ ہونی ہے یا پھر یہ دفعہ ہٹائی جارہی ہے۔ میں نے ہر طرف سیکورٹی کی گاڑیاں دیکھیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ کو بڑا واقعہ ہونے جارہا ہے۔‘
سپریم کورٹ کی لٹکتی تلوار
چار سال قبل جب نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بن گئے تو چند ماہ کے اندر ہی ’وی دا سٹیزنز‘ نامی ایک غیرسرکاری تنظیم نے بھارتی آئین میں جموں کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کو سپریم کورٹ میں رٹ درخواست کے ذریعہ چیلنج کیا۔
بعد میں بھارتی میڈیا نے ہی انکشاف کیا کہ یہ تنظیم آر ایس ایس کا ایک فرنٹ ہے۔
اس درخواست میں 1954 میں جاری کیے اُس صدارتی حکم نامے کو چیلنج کیا گیا ہے جس نے آنڈیا کے آئین کی دفعہ 35A کی رُو سے آنڈیا کے زیرِ انتظام جموں کشمیر کی حکومت کو یہ اختیارات دیے ہیں کہ وہ یہ طے کرے کہ کون کشمیر کا پشتینی باشندہ ہے۔
یہ دفعہ دراصل آنڈیا کے آئین کی دفعہ 370 کو زیادہ مستحکم کرتی ہے۔ اس دفعہ کے مطابق بھارت کی کسی بھی ریاست کا شہری کشمیر کی شہریت حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی یہاں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک بن سکتا ہے۔
بی جے پی کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ ان آئینی دفعات کی وجہ سے کشمیریوں میں علیحدگی پسندی پروان چڑھی ہے، لہذا انہیں ہٹا کر کشمیر کا بھارتی وفاق میں باقاعدہ انضمام کیا جائے۔
اس سلسلے میں گزشتہ چار سال کے دوران تین الگ الگ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں جن میں کشمیر کے آئینی اختیارات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہاں کے ہندنواز سیاسی گروپ اور علیحدگی پسند اس معاملے میں ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان دفعات کو ہٹانے کے پیچھے کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار تبدیل کرنے کا مقصد کارفرما ہے۔
اس لئے جب جب ان درخواستوں کی سماعت طے ہوتی ہے کشمیر میں ہڑتال ہوتی ہے۔
کشمیر یونیورسٹی میں ریسرچ سکالر انشا آفرین نے بی بی سی کو بتایا: ’وزیراعظم نریندر مودی اگر کہتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے دفاع کے لئے سب کچھ کررہے ہیں تو سپریم کورٹ میں حکومت انڈیا کوئی موقف کیوں نہیں اختیار کرتی؟ کیوں ہر بار کورٹ کی سماعت پر ہم یہ سمجھیں کہ ہمارا حشر فلسطینوں جیسا ہونے جارہا ہے۔‘
واضع رہے کہ 14 فروری کو بھارتی فورسز پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد وادی میں کشیدگی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔
گذشتہ ہفتے حکومت نے نیم فوجی اہلکاروں کی دو سو اضافی کمپنیوں کو وادی میں تعینات کرنے کا اعلان کرتے ہی محکمہ خوراک اور محکمہ صحت کو ہدایات دیں کہ ادویات اور غذائی اجناس کی وافر مقدار کو سٹاک کیا جائے۔
کریک ڈاون
ساتھ ہی 30 سال میں اپنی نوعیت کے سب سے بڑے کریک ڈاون کے تحت علیحدگی پسند رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا، جسے سید علی گیلانی اور میرواعظ فاروق نے "نفسیاتی جنگی حربہ" قرار دے کر حکومت سے کہا ہے کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے بھی ان گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔ بی جے پی کے سابق اتحادی سجاد لون نے کہا ہے: ’گرفتاریاں ایک آزمودہ حربہ ہے اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘
اس صورتحال سے کشمیر میں سنسنی پھیل گئی اور لوگوں میں یہ خوف پیدا ہوگیا کہ پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کو ختم کیا جائے گا ، اسی لئے اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا اور گرفتاری مہم چلائی گئی۔
یہ خدشات اس قدر شدید تھے کہ گزشتہ سنیچر اور اتوار کے روز لوگوں نے ضروری اشیا کی بے تحاشا خریداری کی۔ افواہوں کا بازار بھی گرم رہا۔
تاہم اتوار کے روز حکومت کے ترجمان روہت کنسل نے ایک پریس کانفرنس میں لوگوں سے اپیل کی کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں۔
ان کا کہنا تھا کہ جموں تا سرینگر شاہراہ کے مسلسل بند رہنے کے باعث حکومت نے بعض اعلانات کیے تھے اور شرپسند عناصر نے جنگ کی افواہ اُڑا دی۔
انھوں نے کشمیر کی اندرونی خودمختاری کو چیلنج کرنے والی رٹ درخواست پر سپریم کورٹ کی سماعت سے متعلق کہا کہ حکومت نے مرکزی حکومت اور سپریم کو تحریری طور لکھا ہے کہ کشمیر میں منتخب حکومت قائم ہونے تک اس سماعت کو موخر کیا جائے۔
دریں اثنا پلوامہ حملے کے بعد مسلح تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس حملے کے صرف دس روز میں دو مسلح تصادم ہوئے جس میں فوج اور پولیس کو شدید جانی نقصان ہوا۔ تازہ جھڑپ جنوبی ضلع کولگام میں ہوئی جہاں ایک پولیس افسر اور فوجی کے علاوہ تین عسکریت پسند مارے گئے۔ وادی میں پہلے ہی ریڈ الرٹ ہے اور فورسز کی بھاری تعداد شہروں اور قصبوں میں تعینات ہے۔
لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب علیحدگی پسند رہنماؤں سمیت دیگر کارکنوں کی گرفتار کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔