ایل او سی پر جنگ بندی کا معاہدہ: انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ بندی کتنی دیرپا ہو گی؟
- پروین شرما
- صحافی
جمعرات کو انڈیا اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان دونوں ممالک کی فوجوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔
اس کے تحت 24-25 فروری کی درمیانی رات سے دونوں ممالک لائن آف کنٹرول پر فائرنگ بند کردیں گے اور جنگ بندی سے متعلق گذشتہ معاہدوں پر عمل کریں گے۔
انڈین وزارت دفاع کی جانب سے 25 فروری کو جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 'انڈیا اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن کے ذریعے تبادلہ خیال کیا۔ دونوں فریقوں نے لائن آف کنٹرول اور دیگر تمام سیکٹروں پر موجودہ صورت حال کا کھلے اور پرسکون ماحول میں جائزہ لیا۔'
یہ بھی پڑھیے
اس میں مزید کہا گیا: 'باہمی مفادات کے پیش نظر اور سرحد پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز ایک دوسرے سے منسلک سنگین امور پر بات چیت کریں گے جو خطے میں امن و امان کی خلاف ورزی ہو یا تشدد کو بڑھانے کا خطرہ ہو۔'
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں نے تمام معاہدوں کے ساتھ کنٹرول لائن اور دیگر تمام سیکٹرز میں جنگ بندی کی سختی سے پابندی کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
امریکہ اور اقوام متحدہ نے اسے اچھا فیصلہ قرار دیا
امریکہ اور اقوام متحدہ نے انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر نے دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ممالک کا بنیادی معاملات کو حل کرنے اور امن برقرار رکھنے کا عزم دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال ہے۔
امریکہ نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ امریکہ نے اسے جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔
معاہدے سے مذاکرات کی راہیں کھلنے کی امید
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیا نے جنگ بندی کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ بھاٹیا کہتے ہیں: 'سنہ 2003 ء کی جنگ بندی کو نئے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔'
انھوں نے کہا: 'اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان ہاٹ لائن کے قیام اور فلیگ میٹنگز کے ذریعے سی بی ایم (اعتماد سازی کے اقدامات یا اعتماد بڑھانے کے اقدامات) کی بھی بات کی گئی ہے۔ یہ سب فائرنگ کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔'
بھاٹیا کا خیال ہے کہ پاکستان کو اس کی زیادہ ضرورت تھی کیونکہ وہ ابھی بھی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ نیز انڈیا کو بھی اس سے فائدہ ہوگا۔
سینیئر صحافی غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ یہ ایک مثبت قدم ہے۔ وہ کہتی ہیں: 'کسی بھی ملک کے لیے مسلسل تناؤ میں رہنا ممکن نہیں۔ تناؤ کے وقت باہمی معاہدوں اور کاروبار سمیت ہر چیز پر اثر پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ اچھا آغاز ہے اور امید ہے کہ صورتحال مزید بہتر ہوگی۔'
ماضی میں بھی دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے اور یہ طویل عرصے تک برقرار بھی رہی۔ سنہ 2003 کے بعد ایک طویل عرصے تک سرحدوں پر امن رہا۔
وہاب کہتی ہیں: 'اس وقت تو لوگ کنٹرول لائن کے پار جاکر کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ ایسے میں اگر دونوں ممالک اس معاہدے پر عمل کرتے ہیں تو مستقبل میں بھی مذاکرات کے دروازے کھلے رہیں گے۔'
اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور سینیئر صحافی سیکت دتہ کا کہنا ہے کہ 'چین کے ساتھ گذشتہ سال سے کشیدگی جاری ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت نہیں چاہتی تھی کہ چین اور پاکستان دونوں سرحدوں پر بیک وقت تناؤ رہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ اس لحاظ سے یہ معاہدہ ٹھیک ہے۔
سیکت دتہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی شدت پسندی کے واقعات اور ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سیکت دتہ نے خیال ظاہر کیا کہ سنہ 2003 سے 2014 کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بہت کم واقعات ہوئے اور یہ دور تقریبا پرامن رہا۔
پچھلے کچھ سالوں میں فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا
انڈیا اور پاکستان کے مابین سنہ 2003 میں جنگ بندی ہوئی تھی۔ تاہم کچھ سال تک قائم رہنے کے بعد یہ معاہدہ برائے نام رہ گیا تھا اور دونوں ممالک کے مابین سرحد پار سے فائرنگ اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات اکثروبیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2020 میں انڈیا اور پاکستان کے مابین سیز فائر کی خلاف ورزی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
جموں و کشمیر کی سرحد کے ساتھ سنہ 2020 میں سیز فائر کی پانچ ہزار 133 بار خلاف ورزیاں ہوئیں جو کہ 2019 میں میں ہونے والی تین ہزار 479 خلاف ورزیوں سے 47.5 فیصد زیادہ تھیں۔
سنہ 2020 میں ان واقعات میں 46 اموات ہوئیں۔ ان میں 22 عام شہری اور 24 سکیورٹی فورسز شامل ہیں۔ رواں سال اب تک جنگ بندی کی تقریبا 300 خلاف ورزیاں ہوچکی ہیں۔
سنہ 2018 میں جموں و کشمیر میں جنگ بندی کی دو ہزار 936 خلاف ورزیاں ہوئیں اور ان میں 61 سکیورٹی فورسز اور عام شہری مارے گئے جبکہ سنہ 2017 میں ان واقعات کی تعداد 971 تھی۔ اس دوران 12 عام شہری اور 19 سکیورٹی فورسز کے جوان ہلاک ہوئے تھے۔
اس طرح یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں میں انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
کیا معاہدہ پائیدار ہوگا؟
دونوں ممالک کے مابین تنازعات کی پرانی تاریخ، انتہا پسندی کے واقعات، دراندازی اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے خراب تجربات کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنگ بندی کب تک جاری رہے گی؟
لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیہ کہتے ہیں: 'دراصل پاکستان فائرنگ کی آڑ میں دراندازی کرتا ہے۔ اگر وہ دراندازی کو روکتے ہیں تو مزید مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔'
غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ 'سب سے بڑا چیلنج دونوں ممالک کے لیے یہ ہے کہ وہ اس جنگ بندی پر قائم رہے۔ سیاسی موقع پرستی پر اسے قربان نہیں کیا جانا چاہیے۔'
بھاٹیہ نے جنگ بندی کی بار بار خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مزید بات چیت کا انحصار اس امر پر منحصر ہوگا کہ اس پر ع کس طرح مل درآمد کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بندی پہلی بار پو نہیں ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے پر 2003 میں پہلی بار دستخط ہوئے تھے اور یہ صرف 4-5 سال تک جاری رہی۔ سنہ 2007 میں فائرنگ کے واقعات ہوئے۔
بھاٹیہ نے کہا: 'میں سنہ 2013 میں واہگہ بارڈر پر بطور ڈی جی ایم او گیا اور پاکستان کے ڈی جی ایم او سے بات کی ۔اس کے بعد جنگ بندی جاری رہی ۔یہ پھر ٹوٹ گئی۔ سنہ 2018 میں ایک بار پھر سیز فائر پر بات چیت ہوئی اور یہ پھر ٹوٹ گئی۔ اس بار بھی دیکھنا ہے کہ یہ کتنے دنوں تک قائم رہتی ہے۔'
بھاٹیہ کہتے ہیں: 'جنگ بندی اس وقت تک ہی قائم رہے گی جب تک پاکستان دراندازیوں پر لگام لگائے رکھتا ہے۔ اگر جنگ بندی تین چار سال بھی برقرار رہتی ہے تو یہ بڑی بات ہوگی۔'
تاہم ، انھوں نے پاکستان کے ارادے پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'پاکستان کے پاس پراکسی وار کی پالیسی ہے۔ ایسی صورتحال میں مجھے نہیں لگتا کہ وہ در اندازی بند کردیں گے۔'
گھریلو سیاست ایک فیکٹر ہے
انڈیا کی گھریلو سیاست میں پاکستان کا ایک اہم مسئلہ ہونا بھی ایک بڑا فیکٹر ہوسکتا ہے۔
سیکت دتہ کہتے ہیں: 'جنگ بندی کے پائیدار ہونے کی راہ میں دو بڑے چیلنجز ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم پاکستان پر بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں۔ دوسرے موجودہ حکومت کی ملکی پالیسی اور خارجہ پالیسی گھل مل جاتی ہے۔ گھریلو سیاست میں پاکستان کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جنگ بندی کب تک جاری رہے گی۔'
غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ اگر ہم امن چاہتے ہیں تو پاکستان کو بطور سیاسی مسئلہ استعمال کرنا بھی بند کرنا چاہیے۔ یہ دونوں طرف سے ہونا چاہیے۔
کیا اصل امور پر بات ہوگی؟
مشترکہ بیان میں دونوں فریقوں نے بنیادی امور کو حل کرنے کی بات کی ہے لیکن اس بارے میں ابہام بھی پیدا ہو رہا ہے۔
غزالہ کہتی ہیں: 'یہ ایک دلچسپ چیز ہے کیونکہ ہمارے بنیادی معاملات اور ان کے معاملات مختلف ہیں۔ ہم انتہا پسندی کو اہم مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ کشمیر ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی بات ہوتی ہے تو پھر دونوں امور پر بات ہوگی۔ ہماری حکومت نے کہا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کریں گے کیونکہ یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے اور یہ بھی تنازعے کا باعث ہو سکتا ہے۔'
دونوں ممالک کے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور امن کی بحالی کے معاملے پر لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ 'جنگ بندی سے متعلق معاہدہ پہلا قدم ہے۔ گذشتہ ستر سالوں سے جاری امور کو ایک دن میں حل نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس پر مزید کس طرح آگے بڑھا جائے یہ اس پر منحصر ہوگا کہ جنگ بندی کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے۔'
حکومت کا مقصد واضح نہیں ہے
ماہرین کا خیال ہے کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت نے جنگ بندی کس مقصد کے لیے کی ہے، کیونکہ حکومت کی گذشتہ کئی برسوں سے یہ پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرنی ہے۔
غزالہ کہتی ہیں: 'ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا مقصد کیا ہے۔ کیا یہ کوئی قلیل مدتی مقصد حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے؟ کیا چین کی کشیدگی کے پیش نظر ایسا ہوا ہے؟ یا واقعی حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونا چاہیے۔'
بہر حال غزالہ وہاب کو امید ہے کہ مستقبل میں یہ معاملہ زیادہ واضح ہوگا۔