دلی فسادات کا ’پوسٹر بوائے‘ شاہ رخ پٹھان اور دیگر افراد ایک برس سے ضمانتوں کے منتظر

  • نصرت جہاں
  • بی بی سی اردو سروس، لندن
دلی دنگے

،تصویر کا ذریعہPti

،تصویر کا کیپشن

شاہ رخ کی یہ تصویر میڈیا پر بحث کا موضوع بنی

’امی پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا، میرا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں تھا، میں جلدی گھر آ جاؤں گا۔‘

فون پر جب شاہ رخ کی والدہ اپنے بیٹے کے یہ الفاظ دہرا رہی تھیں تو ان کی آواز میں کرب اور ممتا دونوں محسوس ہو رہی تھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا انتہائی سادہ انسان ہے۔ ’اس روز حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکا اس کے بہت سے ہندو دوست ہیں جو آج بھی اس کے لیے فکر مند ہیں۔‘

شاہ رخ پٹھان خان ایک ایسا چہرہ تھا جو انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون این آر سی کے خلاف سنہ 2019 میں شروع ہونے والے احتجاج کے بعد فسادات کے دوران اخبارات اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔

شاہ رخ: دلی دنگوں کا ’پوسٹر بوائے‘

24 فروری 2020 کو دلی میں فسادات کے دوران ہاتھ میں گن اٹھائے لال شرٹ اور نیلی جینز میں جب ایک نوجوان کی تصویر میڈیا میں آئی تو کسی چینل نے اُسے دلی دنگوں کی سازش کی اہم کڑی کہا تو کسی نے شیطان، تو کسی نے دلی دنگوں کا ’پوسٹر بوائے۔‘

دلی فسادات کے دوران شاہ رخ کی اس ویڈیو کے بارے میں سب سے زیادہ بات ہوئی تھی جس میں وہ پولیس والے پر پستول تان رہے ہیں اور ان کے پیچھے ہجوم پتھر پھینک رہا ہے۔ لال شرٹ پہنے یہ لڑکا پولیس والے پر پستول تانے آگے بڑھ رہا ہے، لڑکے کے ساتھ بھیڑ بھی آگے بڑھ رہی ہے۔

شاہ رخ کو گذشتہ سال تین مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف اقدامِ قتل اور آرمز ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں اور اب وہ دلی کی تہاڑ جیل کے سیل نمبر چار میں ایک سال سے اپنی ضمانت کے منتظر ہیں۔

شاہ رخ کے وکیل ایڈووکیٹ خالد اختر کا کہنا ہے کہ عدالت سے پہلے ہی میڈیا میں شاہ رخ کا ٹرائل شروع ہو چکا تھا اور اسے دلی دنگوں کا ’پوسٹر بوائے‘ بنا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا کیپشن

شاہ رخ پٹھان خان ایک سال سے ضمانت کے منتظر ہیں

ایڈووکیٹ خالد اختر سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور انھوں نے گذشتہ سال دسمبر میں ہی شاہ رخ کا کیس لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا کی خبریں کسی بھی کیس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

خالد کہتے ہیں کہ شاہ رخ پچھلے ایک سال سے اپنی ضمانت کے منتظر ہیں جبکہ ایسے ہی ایک کیس میں کپل گجر نام کے اس شخص کو رہا کر دیا گیا جنھوں نے فروری میں ہی شاہین باغ میں جاری احتجاج کے نزدیک فائرنگ کی تھی۔ شاہ رخ کی والدہ نے سوال کیا کہ یہ دوہرا میعار کیوں؟

بی جے پی کا موقف

،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشن

کپل گجر اب رہا ہو چکے ہیں

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس بارے میں بی جے پی کے ترجمان اور رکنِ پارلیمان امیتابھ سنہا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کچھ لوگوں کو ضمانت نہیں مل رہی تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کپل گجر کے خلاف وہ ثبوت نہ ہوں جو دوسرے گرفتار لوگوں کے خلاف ہیں۔ عدلیہ پر حکومت کے دباؤ کے الزامات کے بارے میں امیتابھ سنہا کہتے ہیں کہ پارٹی جانبدار ہو سکتی ہے لیکن عدلیہ نہیں، اس ملک کی عدلیہ آزاد ہے۔‘

بہرحال شاہ رخ کی ضمانت کی درخواستیں مسترد ہوتی جا رہی ہیں اور جون 2020 میں ہونے والی ایک سماعت میں ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس سریش کمار کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہیرو بننے کی کوشش کریں گے تو آپ کو قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔ آپ ہیرو بننا چاہتے تھے۔‘

شاہ رخ کی ضمانت کی اگلی سماعت اب 25 مارچ کو ہوگی۔

شاہ رخ کے خاندان کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے والے مقامی صحافی اخلاد خان کا کہنا ہے کہ شاہ رخ کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں اور اگر تحقیقات ہو چکی ہیں اور چارج شیٹ بھی داخل کی جا چکی ہے تو پھر اسے ضمانت مل جانی چاہیے۔ انھیں امید ہے کہ اس بار شاہ رخ کو ضمانت مل جائے گی۔

،تصویر کا ذریعہFB UMER KHALID

،تصویر کا کیپشن

عمر خالد کو دلی دنگوں کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا

عمر خالد کے خلاف چارج شیٹ نہیں بلکہ ایک افسانہ ہے

سابق سٹوڈنٹ لیڈر اور سماجی کارکن عمر خالد کو بھی دلی فسادات کی سازش کے الزام میں تقریباً چھ ماہ قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ ان کے خلاف 24 سے زیادہ دفعات لگائی گئی ہیں جن میں آرمز ایکٹ، 302 کے تحت اقدامِ قتل، غداری اور یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج ہیں۔

عمر کے والد ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس کا کہنا ہے کہ عمر خالد کے خلاف چارج شیٹ نہیں بلکہ ایک افسانہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ عمر کے خلاف ایسی دفعات کے تحت مقدمے درج کیے گئِے ہیں جن میں ضمانت ملنا مشکل ہوتا ہے۔ عمر خالد کے کیس کی اگلی سماعت اس مہینے کی 16 تاریخ کو ہونی ہے۔

مسٹر الیاس، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ہیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی ورکِنگ کمیٹی سے وابستہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ سی اے اے کے خلاف احتجاج میں شامل تھے، حکومت کہیں نہ کہیں انھیں پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جیل میں خالد کی مصروفیات کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ خالد جیل میں پڑھنے لکھنے کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔

یہ پوچھنے پر کہ کیا انھیں انصاف کی امید ہے، ان کا کہنا تھا ادارے موجودہ حکومت کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں اور اس حکومت کے رہتے ہوئے انصاف ملنا مشکل ہے۔

سی اے اے اور آرٹیکل 370 کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے سے متعلق مقدمے کی سماعت آج تک نہیں ہوئی، اسی طرح سی اے اے کو چیلنج کیا گیا اور اس کی سماعت بھی ٹلتی جا رہی ہے۔

عمر خالد کے والد کا کہنا تھا کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ حزبِ اختلاف کمزور ہے اس لیے لوگوں نے عوامی تحریک کا راستہ اختیار کر لیا ہے جس کی مثال سی اے اے مخالف مہم اور اب کسانوں کا احتجاج ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جواہر لال نہرو یونیورسٹی

بی جے پی رہنما امیتابھ سنہا کا کہنا ہے کہ ’ملک میں منظور شدہ قوانین کی مخالفت کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کی وفاداری ملک اور اس کی حکومت کے ساتھ نہیں اور اگر آپ سی اے اے اور زرعی قوانین جو حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے ہیں ان کے خلاف جائیں گے اور دنگا کریں گے تو آپ انارکِسٹ ہیں۔‘

مظاہروں اور دنگوں میں پولیس کی یکطرفہ کارروائیوں کے الزامات کے جواب میں امیتابھ سنہا کہتے ہیں کہ ’دنگا کرنے والوں اور انارکسٹوں کو روکنا پولیس کا کام ہے۔‘

جیل میں لوگ جرائم پیشہ ضرور ہیں لیکن فرقہ پرست نہیں

،تصویر کا ذریعہKHALID SAIFI

’یونائٹڈ اگینسٹ ہیٹ‘ یعنی نفرت کے خلاف متحد کے بانی خالد سیفی کو گزشتہ سال فروری میں دلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان اہلیہ نرگس بھی اپنے شوہر کی رہائی کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 26 فروری 2020 کی رات ان کا فون آیا کہ میں خالد بول رہا ہوں مجھے کل منڈولی جیل بھیج رہے ہیں۔

’جب میں ان سے ملنے گئی تو وہ وہیل چیئر پر تھے، وہ چل نہیں سکتے تھے۔ ان کے ہاتھ پیروں پر ڈنڈوں کے نشان تھے اور ان کی داڑھی اور سرکے بال نوچے گئے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ دلی فسادات کی سازش کے ایک الزام میں انھیں ضمانت مل چکی ہے۔ نرگس کا کہنا ہے کہ خالد ایک دوسرے کیس کے سلسلے میں ابھی تک جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف یو اے پی اے یعنی ’ان لا فل ایکٹیوٹیز پری وینشن ایکٹ‘ لگایا گیا ہے جس میں ضمانت ملنے میں مشکل ہوتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہBBC

،تصویر کا کیپشن

خالد سیفی کی اگلی پیشی 12 مارچ کو ہے

نرگس کا کہنا ہے کہ عدالت میں خالد کی اگلی پیشی 12 مارچ کو ہے اور انھیں ملک کے آئین پر بھروسہ ہے، انھیں انصاف کی امید ہے کیونکہ دنیا میں اگر برے لوگ ہیں تو اچھے لوگ بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب خالد بیمار تھے تو جیل میں ان کے ساتھی قیدیوں نے ان کا خیال رکھا جس پر خالد نے ان سے کہا تھا کہ جیل میں لوگ مجرم ضرور ہیں لیکن فرقہ پرست نہیں۔

’حکومت سماجی کارکنوں کو اصل خطرہ سمجھتی ہے‘

انڈیا کے سینئیر صحافی ارملیش سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی اے اے تحریک میں شامل لوگوں پر فرقہ وارانہ فسادات کرانے، ملک سے غداری اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی سیاسی لوگ نہیں اور نہ ہی ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے۔

،تصویر کا کیپشن

شاہین باغ سے سی اے اے کے خلاف شروع ہونے والا عورتوں کا احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا تھا

‘یہ سماجی کارکن ہیں، ایسے نوجوان جو ایک اچھے مستقبل، خوبصورت ملک، جمہوریت اور بہتر زندگی چاہتے ہیں چاہے ان میں عمر خالد ہوں، خالد سیفی، دیوانگنہ ہوں یا نتاشا نروال، شرجیل امام یا اکھل گوگوئی، حکومت کو لگتا ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو اپوزیشن سے زیادہ خطرناک ہے اور یہ ایک نظریہ قائم کر رہے ہیں، ایک ایسا نظریہ جو حکومت کے نظریے کو چیلنج کر رہا ہے۔‘

ارملیش سنگھ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اپوزیشن کو ختم کر دیا اور اب اپوزیشن ان کے رحم و کرم پر ہے اور سی اے اے یا کسان تحریک جیسی عوامی تحریک کے پیچھے ایک سوچ ہے جو ان کے لیے ٹھیک نہیں۔

انڈیا کے دارالحکومت دلی کی دوسری ریاستوں سے متصل سرحدوں پر گزشتہ سال دسمبر میں حکومت کے نئے زرعی قانون کے خلاف زور پکڑنے والے مظاہروں نے کچھ لوگوں کے ذہن میں مودی حکومت کے شہریت سے متعلق متنازع قانون این آر سی مخالِف مظاہروں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کی یادیں تازہ کر دیں۔

اس تشدد کی لہر نے انڈیا کی مشہور جامعہ ملیہ یونیورسٹی سے لے کر جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک کو نہیں بخشا۔

یوں تو این آر سی کے خلاف ملک کے دوسرے حصوں خاص طور پر ریاست آسام میں احتجاج جاری تھا لیکن دلی کے شاہین باغ میں عورتوں کی جانب سے شروع ہونے والا احتجاج جب ملک کے دوسرے حصوں میں پھیلنے لگا تو ملک اور بیرون ملک میڈیا میں اس کے بارے میں تبصرے ہوئے، حکومت اور پولیس حرکت میں آئی اور بے شمار گرفتاریاں ہوئیں جن میں سوشل ایکٹیوسٹ، طلبا صحافی اور عام لوگ شامل تھے۔

اس کے بعد دلی میں ہونے والے فسادات میں پچاس سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

ایمرجنسی سے زیادہ خراب حالات

فسادات کے سلسلے میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سٹوڈنٹ ایکٹیوِسٹ صفورہ زرگر، جے این یو کے سٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد، دیوانگنہ، نتاشا نروال، گل افشاں فاطمہ، شرجیل امام اور خالد سیفی کے علاوہ ایسی درجنوں شخصیات شامل ہیں جو این آر سی کے خلاف احتجاج میں کسی نہ کسی طرح حصہ لے رہے تھے۔

صحافی ارملیش کا کہنا تھا اس وقت انڈیا کے عجیب و غریب حالات ہیں اور سنہ 1975 میں اس وقت کانگریس پارٹی کی حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کو یاد کریں تو اس وقت بھی لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’تاہم وہ سیاسی پارٹیوں کے رہنما تھے لیکن آج جو لوگ جیلوں میں ڈالے گئے ہیں ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ یہ سماجی کارکن ہیں۔ یہ سنگین حالات کی جانب ایک اشارہ ہے۔‘