انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان بنائے گئے ’فرینڈشِپ برِج‘ کی کیا اہمیت ہے؟
- سلمان راوی
- بی بی سی
1.9 کلو میٹر لمبے اس پُل کا افتتاح دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور سٹریٹجک تعلقات کے لیے بہت معنی رکھتا ہے
انڈین ریاست تریپورہ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مانک سرکار نے تجویز پیش کی تھی کہ فینی ندی پر بنگلہ دیش کو انڈیا سے جوڑنے والا پل تعمیر کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں این ڈی اے حکومت نے اس تجویز کو قبول کرلیا تھا۔ فینی ندی پر یہ پل بھی تیار ہو گیا اور منگل کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ورچوئلی اس کا افتتاح بھی کیا ہے۔
اس پل کے افتتاح کے بعد شمال مشرق میں واقع ریاست تریپورہ کو ’انڈیا کی کھڑکی‘ کہا جا رہا ہے۔
فینی ندی اُن سات دریاؤں میں سے ایک ہے جس کے پانی کی تقسیم پر انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ یہ دریا بنگلہ دیش اور انڈیا کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔
تریپورہ کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ مانک سرکار نے سنہ 2010 میں مرکزی حکومت کے سامنے فینی پل کی تعمیر کی تجویز پیش کر دی تھی۔ لیکن 133 کروڑ کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس پل کا کام سال 2017 میں شروع ہوا۔
چونکہ بنگلہ دیش اپنی آزادی کی 50 ویں سالگرہ منانے جا رہا ہے اور اس موقع پر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی وہاں جا رہے ہیں تو ایسے موقع پر اس دورے سے قبل تریپورہ کے جنوبی سرے سبروم کو بنگلہ دیش کے رام گڑھ سے جوڑنے والے 1.9 کلو میٹر لمبے اس پُل کا افتتاح دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور سٹریٹجک تعلقات کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے اس دوستی پل کا افتتاح کرنے کے بعد بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ وہ خطے میں رابطوں کو مستحکم کرنے کے انڈیا کے عزم کی حمایت کرتی ہیں۔
وزیر اعظم حسینہ واجد نے کہا کہ 'میتری یعنی فرینڈشپ برج' کا افتتاح دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کے ذرائع کو مضبوط بنانے کی سمت میں ایک تاریخی قدم ہے۔ حسینہ واجد نے کہا کہ تمام تر امکانات کے باوجود تجارت کے بہت سے راستوں پر کام مکمل نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی سرحدوں کو تجارت کی پابندی کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے
اس پل سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلہ کم ہوگا
'فرینڈشپ برج'
عالمی اور خاص کر انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اس پل کو 'فرینڈشپ برج' کا نام دیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پل شروع ہونے کے بعد تریپورہ کے سبروم سے چٹگانگ بندرگاہ کا فاصلہ صرف 80 کلومیٹر ہوگا، جس سے کاروبار اور لوگوں کو کم وقت میں سفر مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔
پل کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم مودی نے سبروم میں 'انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ' کا افتتاح بھی کیا ہے۔
پل کے افتتاح کے بعد تریپورہ کو شمال مشرقی ’انڈیا کی کھڑکی‘ کی پہچان بھی مل رہی ہے کیونکہ اس راستے سے شمال مشرقی انڈیا کے کسان اور تاجر آسانی سے اپنا سامان بنگلہ دیش لے جاسکتے ہیں اور وہاں سے سامان اپنے ملک لا سکتے ہیں۔
فی الحال انڈیا بنگلہ دیش سے کاغذ، ریڈی میڈ گارمنٹس، نمک اور مچھلی جیسی اشیا درآمد کرتا ہے، جبکہ بنگلہ دیش بھی روز مرہ استعمال کی متعدد اہم اشیا کے لیے انڈیا پر انحصار کرتا ہے۔ ان میں پیاز، کپاس، سپنج آئرن اور خاص طور پر مشینوں کے پرزے شامل ہیں۔
پل کے افتتاح کے بعد تریپورہ کو شمال مشرقی انڈیا کی کھڑکی کی پہچان بھی مل رہی ہے
جنوبی ایشیا میں انڈیا کی تجارت
اگر ہم گذشتہ سال کی بات کریں تو کورونا وبا کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت متاثر ہوئی لیکن آہستہ آہستہ اس میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
اس سال جنوری میں انڈین حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شریواستو نے کہا تھا کہ سال 2021 انڈیا اور بنگلہ دیش کے لیے تاریخی ہوگا۔
امور خارجہ کے ماہر اور سینئر صحافی منوج جوشی کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں بھارت کا تجارت میں سب سے بڑا شراکت دار ہے۔‘
بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان تجارتی تعلقات کے قیام میں بہت سی رکاوٹیں رہی ہیں۔
1999 میں بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ اور ریاست تریپورہ کے اگرتلہ اور مغربی بنگال کے کولکتہ شہر سے بس سروس شروع کی گئی تھی، پھر کولکتہ اور ڈھاکہ کے درمیان 43 سال سے معطل ریلوے سروس بھی شروع ہوگئی۔
سینئر صحافی سدھا رام چندرن کے مطابق کولکتہ اور ڈھاکہ کے درمیان ریل سروس دوبارہ شروع کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی دوسرے راستوں پر ریل سروسز کا آغاز ہوا۔ حال ہی میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے مشترکہ طور پر ہلدع باڑی اور چلاہٹی کے درمیان ریلوے سروس کا افتتاح کیا ہے۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ وہ خطے میں رابطے کو مستحکم کرنے کے انڈیا کے عزم کی حمایت کرتی ہیں۔
یہاں پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریاستی دارالحکومت تریپورہ اور بین الاقوامی بحری بندرگاہ چٹگانگ کے درمیان فاصلہ کافی حد تک کم ہوجائے گا۔
لندن میں واقع کنگز کالج کے پروفیسر ہرش وی پنت کے مطابق ’پچھلے کچھ برسوں میں بنگلہ دیش کے معاشی پروفائل میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے اور اس نے اپنی سپلائی چین کو بھی کافی مضبوط کیا ہے۔
ہرش پنت کے مطابق دونوں ممالک کاروبار کو مزید وسیع بنانے کے لیے جلد آبی گزر گاہیں قائم کرنے جارہے ہیں کیونکہ مرکزی وزیر نتن گڈکری نے بھی اپنے بیان میں یہ بات کہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے اور یہ کہ دونوں ممالک تجارت کو فروغ دینے کے لیے اپنے ساحل کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرسکے ہیں جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔
تاہم سینئر صحافی سدھا رام چندرن کا خیال ہے کہ انڈیا کو بنگلہ دیش کے ساتھ روڈ اور ریل رابطے کو بہتر بنانے کے علاوہ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بنگلہ دیش کے عوام میں ’انڈیا کے لیے جو احترام ہے‘ اسے کچھ لیڈروں کی جانب سے وقتاً فوقتاً دیے جانے والے بیانات سے متاثر نہ کیا جائے۔