مندر سے پانی پینے پر مسلمان بچے پر تشدد۔: ’پانی کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے کیا؟
- شکیل اختر
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
واقعہ دلی کے نواح میں واقع ڈاسنا علاقے میں رونما ہوا
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دلی کے نواح میں ایک نوجوان کو ایک مندر کے احاطے میں ایک بچے کو بری طرح مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ بعد میں پولیس نے اس ویڈیوکی بنیاد پر بچے کو زدو کوب کرنے والے نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کا نام شرنگی نندن یادو بتایا گیا ہے ۔ لڑکے کا نام آصف ہے۔ اس کاقصور یہ تھا کہ اس نے مندر کی ٹنکی سے پانی پی لیا تھا۔
یہ واقعہ دلی کے نواح میں واقع ڈاسنا علاقے میں رونما ہوا تھا۔ اطلاع کے مطابق آصف کو پیاس لگی تھی۔ اس نے مندر کے احاطے میں لگی ہوئی ٹنکی سے پانی پی لیا۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ اسی وقت شرنگی نندن یادو وہاں آتا ہے اور آصف کو بلا کر اس کا نام اور اس کے والد کا نام پوچھتا ہے۔ نام جانتے ہی یادو اسے اندر کی طرف بلاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ 'آؤ تمہارے ساتھ ویڈیو بناؤں گا'۔ اور وہیں پر وہ اسے گرا کر بری طرح زدوکوب کرتا ہے۔
اس ویڈیو کو بنانے والے یادو کےساتھی شیوا نند نے وائرل کیا تھا۔ مقامی پولیس افسر ایراج راجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وائرل ویڈیوکا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پولیس نے ایک مقدمہ درج کر لیا تھا۔ بعد میں بچے کے والد کی طرف سے داخل کی گئی تحریر کو بھی اس معاملے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ بچے کو پیٹنے والے شرنگی نندن یادو کو ہفتے کے ہی روز گرفتار کر لیا گیا جب کہ ویڈیو بنانے والے شیوانند کو بعد میں گرفتار کیا گیا۔ بچے کی میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد اس معاملے میں مزید دفعات جوڑی جا سکتی ہیں۔ پولیس اس معاملے میں سخت کارروائی کرے گی۔'
یہ بھی پڑھیے
آصف مندر پانی پینے کے لیے گیا تھا
آصف اس واقعے کے بعد ڈر گیا ہے۔ وہ زیادہ تر خاموش رہتا ہے اور بستر پر لیٹا رہتا ہے۔ آصف کا کہنا ہے کہ پہلے اس نے مندر کے باہر موجود دو پولیس اہکاروں کو اپنے زد و کوب کیے جانے کے بارے میں بتایا تھا لیکن انہوں نے اس کی شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی اور کوئی مدد نہیں کی۔ آصف نے مزید بتایا کہ ’مجھے پیاس لگی تھی۔ مندر میں نل دیکھ کر پانی پینے چلا گیا۔ پہلے مجھے ایک پنڈت جی نے بلایا اور پو چھا کہ کہ کیا کر رہا ہے۔ میں نے بتایا کہ پانی پینے کے لیے آیا تھا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چلے جاؤ ۔ میں باہر جا ہی رہا تھا کہ ایک اور پنڈت جی آئے اور کہا کہ آؤ تمہارہ ویڈیو بنائیں گے ۔ مجھ سے میرا نام پوچھا ۔ میں نے جیسے ہی نام بتایا تو مجھے گالیاں دے کر پیٹنے لگے ۔ ایک بھیا اس کا ویڈیو بنا رہے تھے ۔ مجھے بہت مارا ۔ میرے سر میں چوٹ آئی ہے۔ میرا ہاتھ بھی مروڑ دیا تھا۔'
آصف کے والد نے اس واقعے کے بعد کہا کہ 'پانی پینے کے لیے میرے بیٹے کو اتنی بے رحمی سے مارا گیا اور ذلیل کیا گیا۔ کیا پانی کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا بھی کوئی مذہب ہے جو کسی پیاسے کو پانی دینے سے انکار کر دے۔‘
بچے کو بے رحمی سے مارنے والے نوجوان شرنگی نندن یادو کا تعلق بہار سے ہے اور وہ انجینئر ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران اس کی ملازمت چلی گئی اس کے بعد وہ ڈاسنا کی دیوی مندر میں خدمات انجام دے رہا ہے۔
مندر کے بورڈ پر درج ہے کہ ’یہاں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے’
یہ مندر پہلے بھی تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ مندر کے باہر ایک بڑا سے بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے ۔ ’یہ مندر ہندوؤں کا مقدس مقام ہے ۔ یہاں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ بحکم یتی نرسنگھانند سرسوتی۔‘ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بورڈ مندر کے دروازے پرپانچ برس سے زیادہ عرصے سے لگا ہوا ہے۔
نرسنگھا نند اس مندر کے بڑے پجاری ہیں اور ایک تنظیم ’ہندوسوابھیمان‘ کے رہنما ہیں۔ وہ اپنے سخت گیر خیالات کے لیے معروف ہیں، ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں انہوں نے کئی ویڈیوز میں اشتعال انگیز اور سخت بیانات جارے کیے تھے۔
مندروں میں غیر ہندو کو پانی پینے یا مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہونے جیسی کوئی منظم روایت نہیں رہی ہے۔ 1980 کے عشرے میں رام مندر کی تحریک شروع ہونے کے بعد ہندو مندروں کے مہنت، پجاری، سادھو اور دوسرے مذہبی رہنما مذہبی تحریک کے راستے بی جے پی کی سیاست سے وابستہ ہوئے۔
بابری مسجد کے خلاف ایک طویل تحریک نے مسلم حکمرانوں، مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کھل کربولنے کا موقع فراہم کیا۔ ملک اور بیرون ملک میں بہت سے دہشت گردی کے واقعات سےانڈیا میں مقامی مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو اور ہوا ملی ۔ہندو مذہبی رہنما دائیں بازو کی مذہبی قوم پرست سیاست کا متحرک حصہ بنتے گئے۔ بی جے پی کے عروج کے ساتھ ہی مسلمان انڈیا کی سیاست اور معاشرے میں حاشیے پر آ گئے ہیں۔ کئی سماجی تجزیہ کار انہیں ملک کا نیا 'اچھوت' قرار دیتے ہیں۔
واقعہ دلی کے نواح میں واقع ڈاسنا علاقے میں رونما ہوا
ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں، شادی بیاہ اور دوسرے مواقع پرشامل ہوتے رہے ہیں ۔ لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔ کئی ریاستوں میں اب مذہبی اور تقافتی تہواروں میں مسلمانوں کی شمولیت ممنوع قرار دی جا رہی ہے۔ مذہبی خلیج اب غلط فہمی یا کم علمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی سوچ کے تحت وسیع ہو رہی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ شرنگی نندن یادو نے نو عمر مسلم بچے کو مندر میں داخل ہونے کے لیے صرف زد وکوب ہی نہیں کیا ۔ اس منظر کاویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اسے مشتہر بھی کیا تھا تاکہ اس کا اثر اور پیغام دور دور تک جائے۔