ہرات: افغانستان کا پرامن سمجھا جانے والا شہر جہاں فوج اور طالبان میں لڑائی کے دوران ’ڈر اور خوف کا ماحول ہے‘

  • خدائے نور ناصر
  • بی بی سی، اسلام آباد
ہرات

،تصویر کا ذریعہEPA

افغانستان میں طالبان جنگجوؤں اور افغان فوج کے درمیان لڑائی اب کئی بڑے شہروں کی سڑکوں تک پہنچ گئی ہے۔ ملک کے تیسرے سب سے بڑے شہر ہرات میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔

ہرات کے بعض مقامات پر طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں افغان فوج فضائی حملے کر رہی ہے جبکہ طالبان جنگجو فورسز کے ساتھ آمنے سامنے لڑائی کرنے کے علاوہ جوابی راکٹ حملے بھی کر رہے ہیں۔

پورے شہر میں فضائی بمباری، راکٹ حملوں اور گولیوں کی آوازیں بآسانی سنی جاسکتی ہیں۔

ہرات میں ’زندہ رہنے کی کوشش

حالیہ لڑائیوں کے سائے میں بسنے والوں سے شہر کی زندگی کے بارے میں جاننے کے لیے ہم نے ہرات کے ایک طالب علم سے بذریعہ واٹس ایپ بات کی۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہم نے ان کا نام تبدیل کر دیا ہے۔

احمد٭ ہرات کے ایک کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اُن کی تعلیمی سرگرمیاں کورونا وبا کی وجہ سے آن لائن منتقل ہو گئ تھیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم جب سے شہر کے بعض حصوں میں طالبان جنگجو داخل ہوئے ہیں تب سے آن لائن کلاسز بھی معطل ہیں اور طلبہ سمیت یہاں ہر شہری کی اولین ترجیح ’زندہ رہنے کی کوشش‘ ہے۔

شہر میں بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی کی صورتحال کا اندازہ ہم اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ بی بی سی کے ساتھ 20 منٹ کے انٹرویو میں احمد کی واٹس ایپ کال چھ مرتبہ کٹی۔

یہ بھی پڑھیے

احمد بتاتے ہیں کہ شہر میں ڈر اور خوف کا ماحول ہے۔

’مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے اپنے گھروں تک محدود ہیں اور چوبیس یا آڑتالیس گھنٹوں میں ایک مرتبہ گھر کا کوئی فرد کھلی دکانوں سے اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ گھر سے نکلنے والے ’اپنا کام ہونے کے بعد فوراً واپس گھر آ جاتے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہEPA/JALIL REZAYEE

ہرات شہر میں افغانستان کے دیگر شہروں کی طرح حکومت نے پہلے ہی سے رات دس بجے کے بعد کرفیو کا اعلان کیا ہوا ہے۔

اگرچہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے آنے کے کئی سال بعد طالبان دوبارہ متحرک ہوئے تھے اور دور دراز علاقوں میں ان فورسز کے خلاف حملے شروع کئے گئے تھے، مگر اب بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد طالبان جنگجوؤں نے شہروں کا رُخ کر لیا ہے۔

گذشتہ جمعے سے اب تک طالبان کم از کم پانچ صوبوں کے صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں جبکہ ہرات، لشکر گاہ، قندہار، طالقان اور کئی دوسرے بڑے شہروں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان جنگجوؤں اور افغان فوج کے درمیان گھمسان کی لڑائی جاری ہیں۔

ہرات میں ’بہت کم لوگ بندوق کے بغیر نظر آ رہے ہیں‘

افغانستان کے مغربی صوبے ہرات کا مرکزی شہر ہرات گذشتہ بیس سالوں میں ملک کے کئی دوسرے شہروں کے مقابلے زیادہ ترقی یافتہ اور پُرامن تصور کیا جاتا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دوسرے بڑے شہروں کی نسبت یہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا اور مختلف دفاتر میں کام کرنے کا تباسب زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب سے شہر کی گلیوں میں جنگ پہنچی ہے، یہاں کے بازار، مارکیٹیں اور شہر کی رونقیں نہ صرف مدہم ہوئی ہیں بلکہ شہر پر ہر طرف سے خوف کا سایہ چھا چکا ہے۔

شہر کے وہ خاندان جو کابل، ایران اور ترکی تک جانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرسکتے تھے، وہ پہلے ہی شہر چھوڑ چکے ہیں۔

ایسے نوجوان جو شہر سے نکل سکتے تھے، نکل چکے ہیں۔ کئی خاندان اس لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔

لیکن وہ جن کے پاس شہر سے نکلنے کے لیے وسائل نہیں، وہ احمد کے خاندان کی طرح بس اس آس پر بیٹھے ہیں کہ ’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اُمید ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘

احمد کے مطابق شہر میں اشیائے خورد و نوش دستیاب ہیں لیکن جنگ کے قریب آتے ہی قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ہرات کے قریب اسلام قلعہ میں طالبان نے انٹرنیٹ کے بڑے ٹاور کو تباہ کیا جس کے بعد شہر اور آس پاس کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی فعالی میں پچاس فیصد کمی آئی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

احمد نے یہ بھی بتایا کہ شہر کے ہسپتالوں میں جنگ کے زخمی افراد اور لاشوں کی ایک بڑی تعداد لائی جارہی ہے۔ اُن کے رشتہ داروں میں ’کئی لوگ اس جنگ میں مارے گئے ہیں۔‘

شہر میں افغان فورسز کے اہلکاروں سمیت کمانڈر اسماعیل خان ملیشیا کے جنگجو بھی جگہ جگہ نظر آرہے ہیں اور بہت کم لوگ بغیر بندوق کے نظر آتے ہیں۔

احمد سے جب پوچھا گیا کہ شہر میں جنگ کے اس ماحول اور خوف سے وہ ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے کیا مانگیں گے؟ تو اُن کا جواب تھا ’ہم تو بین الاقوامی کمیونیٹی سے کچھ نہیں مانگتے ہیں۔

’ہماری نظریں اپنی فوج کی جانب ہیں۔ زندگی، موت ویسے بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘