افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان کی پہلی پریس کانفرنس کا آنکھوں دیکھا حال: ’مزید سوالات کے جواب پھر کسی وقت دیں گے، اب ہم آپ سے ملتے رہیں گے‘

  • ملک مدثر
  • بی بی سی
طالبان پریس کانفرنس

،تصویر کا ذریعہAnadolu Agency

منگل کے روز ہمارا پروگرام تو کابل میں صدارتی محل جانے کا تھا تاکہ دیکھا جائے کہ اب طالبان کے کنٹرول میں وہاں کیا صورتحال ہے لیکن جب صبح اٹھے تو باہر کا چکر لگانے سے پہلے ہی یہ خبر ملی کہ آج تو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرنی ہے۔

بس پھر کیا تھا وقفے وقفے سے ادارے والے ہم سے اور ہم طالبان کے میڈیا ونگ سے پوچھتے رہے کہ پریس کانفرنس کب ہو گی۔ چند گھنٹے تو صرف انتظار اور بار بار فون کرنے میں ہی گزر گئے۔

ساڑھے چار بجے میں اپنے ہوٹل سے نکلا اور میڈیا سینٹر کی جانب بڑھا۔ 45 منٹ تو چیک پوسٹ پر لگے پھر ہم میڈیا سینٹر پہنچے لیکن باہر موجود محافظوں نے ہم صحافیوں کو اندر جانے سے روک دیا اور کہا ابھی اندر سے کوئی حکم نہیں ملا کہ آپ کو اندر جانے کی اجازت دی جائے۔

کوئی گھنٹے سے زیادہ تو میں وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ وقت گزارنے کے لیے ایک محافظ سے بات چیت ہوتی رہی کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم کہاں سے آئے ہیں۔ میرا پاکستان سے تعلق اس محافظ کے لیے باعث حیرت تھا اور اس نے جھٹ پوچھا ’اکیلے ہی آئے ہو کیا؟ ‘

خیر پھر ساڑھے چھ بجے کے قریب اندر سے ہمارا بلاوا آ گیا۔ ہمیں ہماری ہی گاڑیوں میں بغیر چیکنگ کے اندر جانے کی اجازت ملی۔

ایک شاہراہ سے گزرتے ہوئے ہم میڈیا سینٹر کے دروازے تک پہنچے۔ اس میڈیا سینٹر میں میرا پہلی بار آنا نہیں ہوا۔ گزرے برسوں میں کئی بار میں یہاں آ چکا ہوں لیکن آج کا منظر بہت مختلف تھا۔ یہاں نہ سونگھنے والے کتے تھے اور نہ ہی وہ مشین آن تھی جس سے ہماری اور سامان کی تلاشی ہوتی بلکہ وہاں بس طالبان کھڑے تھے۔

طالبان کے میڈیا سے منسلک شخص نے ہاتھ میں دو تین صفحوں پر مشتمل ایک فہرست پکڑ رکھی تھی۔ اس نے ہمارا نام پوچھا، کارڈ دیکھا اور اندر جانے کی اجازت دے دی۔ یہ فہرست شاید میرے سمیت ان تمام صحافیوں کے ناموں پر مشتمل تھی جو فون پر انھیں کال کر کے پریس کانفرنس کا مقام اور جگہ پوچھ رہے تھے۔

اندر پہنچے تو ہمارے علاوہ وہاں مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کی کافی تعداد دکھائی دی۔ کوئی دس بارہ غیر ملکی صحافیوں اور مقامی صحافیوں سمیت کل ملا کر پچاس ساٹھ کے قریب صحافی تھے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں وہاں طالبان بھی موجود تھے۔

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس پریس کانفرنس میں سٹیج پر لگی کرسیوں کے پیچھے افغانستان نہیں بلکہ طالبان کا سفید جھنڈا لہرا رہا تھا۔

لگ بھگ 25 کیمرے ذبیح اللہ کی آمد سے پہلے وہاں سٹیج کو فوکس کر کے سیٹ کر دیے گئے تھے لیکن ابھی انتطار باقی تھا۔

ہمیں پتہ چلا کہ ذبیح اللہ مجاہد نماز ادا کرنے کے بعد آئیں گے۔ تب تک ہم سب ہر آنے والے طالب کو بغور دیکھتے رہے کیونکہ ہم ٹوئٹر پر ذبیح اللہ مجاہد کی تصویر دیکھ چکے تھے۔

ذبیح اللہ مجاہد 15 برس سے زیادہ عرصے سے طالبان کی ترجمانی کر رہے ہیں تاہم انھیں کبھی آج سے پہلے میڈیا پر ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ غالباً یہ پہلی بار تھی کہ وہ منظرعام پر آ رہے تھے۔

تب تک ہم صحافی ہی ایک دوسرے سے گفتگو کرتے رہے۔ غیر ملکی صحافیوں میں سے کچھ سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے کہا کہ کل تک ہم بہت خوفزدہ تھے لیکن اب لگ رہا ہے کہ ہم یہاں کام کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہاں اس پریس کانفرنس میں کوئی مقامی تو نہیں تاہم تین غیر ملکی خواتین صحافی سکارف اور گاؤن میں ملبوس تھیں۔ مجھ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اب کام کرنے کے لیے اور کوئی چوائس نہیں۔

مقامی صحافی کہتے ہیں کہ کام کے لیے دفتر تو کھلا ہے تاہم سارا عملہ موجود نہیں تو کیا کریں، کام کیسے کریں، لوگ اب بھی خوفزدہ ہیں۔

انتظار کی گھڑیاں ساڑھے سات بجے ختم ہوئیں اور صدارتی محل کے سامنے بنی اس عمارت میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد آئے۔

انھوں نے ابتدا میں افغان قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے آزادی کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔

اپنے خطاب میں انھوں نے اعلان کیا کہ امارات اسلامی کسی سے انتقام نہیں لے گی۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ سے ہماری جنگ ختم ہو چکی اور غیر ملکی سفارت خانوں اور لوگوں کی املاک کا خیال رکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کوئی تنازع اور کوئی جنگ دہرانا نہیں چاہتے۔

’ہم نے ہمارے خلاف لڑنے والے تمام لوگوں کو معاف کر دیا۔ دشمنیاں ختم ہو گئی ہیں۔ ہم کوئی داخلی و بیرونی دشمن نہیں چاہتے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم جہاں انھوں نے ملک کے لوگوں کو پیغام دیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں وہیں خواتین کو شریعت کے مطابق حق دینے کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ وہ گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہیں اور تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں۔

یہاں انھوں نے میڈیا کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ پرائیوٹ میڈیا آزاد اور غیر جانبدار انداز میں کام جاری رکھ سکتا ہے۔

ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری رہنے والی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بھی سوالات کی اجازت ملی اور تقریباً ہر ایک نے ہی سوال کیا۔

ان سے جب نظام حکومت اور عورتوں کے سیاست میں کردار کے حوالے سے سوالات کیے گئے تو انھوں نے کہا کہ ابھی بہت سے معاملات پر بات ہو رہی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد پشتو اور فارسی میں بات کر رہے تھے اور بائیں جانب بیٹھے مترجم غیر ملکی صحافیوں کے سوالات کا ان کے لیے ترجمہ کر رہے تھے۔

پریس کانفرنس میں ماحول اتنا نارمل تھا کہ کچھ صحافیوں نے تو کسی لاپتہ شاعر اور کسی لاپتہ امریکی تک کا پوچھ ڈالا۔

آخر تک سوالات ہوتے رہے لیکن پھر ذبیح اللہ مجاہد نے ہم صحافیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ مزید سوالات کے جواب پھر کسی وقت دیں گے کیونکہ اب ہم آپ سے ملتے رہیں گے۔ یوں یہ پریس کانفرنس اختتام کو پہنچی۔

کابل کی سڑکوں پر ٹریفک اب بھی قدرے کم ہے لیکن شاید مجھ سمیت ہر صحافی اس اعصابی تناؤ سے کچھ حد تک نکل چکا ہے جس کا ہم اس پریس کانفرنس میں جانے سے پہلے مسلسل شکار تھے کیونکہ ہمیں جن سے خطرہ تھا، ہم ان سے مل کر آ رہے تھے۔

رات کو ہوٹل کے ڈائنگ ایریا میں گذشتہ رات کی نسبت ماحول کچھ مختلف رہا کیونکہ رات یہاں طالبان نے کھانا کھایا تھا تو وہ تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ سارا کھانا ہی ختم ہو گیا تاہم آج ہمیں کہا گیا کہ فکر نہ کیجیے، کافی کھانا موجود ہے۔

جو نئی چیزیں میں نے نوٹ کیں وہ یہ تھیں کہ ہوٹل کا خواتین سٹاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ سب کام چھوڑ کر جا چکی ہیں۔

دوسرے یہاں اب سکیورٹی کسی کمپنی کی نہیں بلکہ طالبان کے ہاتھ میں آ چکی ہے اور تیسرے معمول کے مطابق مجھے بیگ گراؤنڈ میں بجتی وہ علاقائی موسیقی سنائی نہیں دے رہی تھی جس کی ہمارے کانوں کو عادت سی ہو گئی ہے۔