ذبیح اللہ مجاہد: طالبان کے پراسرار ترجمان نے آخر کار اپنا چہرا دکھا دیا
- جارج رائٹ
- بی بی سی نیوز
طالبان نے جب افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو منگل کو ان کی پہلی پریس کانفرنس میں سب سے زیادہ گفتگو ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کی۔
انھوں نے بہت سے موضوعات پر پوچھے گئے سوالوں کے جواب دیے اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ اس کی اسلامی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے پارسداری کی جائے گی۔
بہت سے صحافی جو انھیں دیکھ اور سن رہے تھے، انھوں نے ذبیح اللہ کا چہرہ پہلی بار دیکھا تھا کیونکہ بہت عرصے سے صرف ان کی آواز ہی سنی گئی تھی۔
بی بی سی کی صحافی یلدا حکیم نے کہا کہ وہ اس انسان کی شکل دیکھ کر دنگ رہ گئیں جن سے وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صرف بات کر رہی تھیں۔
طالبان کے ترجمان کا لہجہ اور انداز مفاہمتی تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ کسی قسم کی اندرونی یا بیرونی دشمنی پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن یلدا حکیم نے کہا کہ یہ ساری باتیں ان تمام میسجوں سے مختلف ہیں جو ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے انھیں ماضی میں موصول ہوا کرتے تھے۔
'ان میں سے بہت سے ایسے میسج تھے جو کہ قدامت پسند اسلامی نظریوں کی عکاسی کرتے۔‘ انھوں نے کہا کہ آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ’یہ آدمی امریکیوں اور افغان حکومت سے منسلک تمام لوگوں کے خون کا پیاسا ہے۔اور آج یہ وہاں بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ کسی سے بدلہ نہیں لیں گے۔ جبکہ بہت عرصے سے یہ دھمکیاں دیتے رہے اور اب اچانک یہ امن پسند بن گئے ہیں۔‘ ان دونوں باتوں کو سمجھنا مشکل لگتا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد اس سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے جس پر افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر داوا خان مینا پال بیٹھتے تھے۔ انھیں طالبان نے کچھ ہفتے قبل قتل کر دیا تھا۔ اس وقت مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور یہ کہا تھا کہ داوا خان ایک 'سپیشل حملے، میں مارے گئے۔
مزید پڑھیے
بہت سے لوگوں نے ذبیح اللہ مجاہد کا چہرہ پہلی بار دیکھنے کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار ٹوئٹر پر کیا۔ بی بی سی کے سینیئر صحافی جان سمپسن نے انھیں 'اعتدال پسند اور خوشگوار، انسان کہا۔
لیکن بہت عرصے سے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ذبیح اللہ مجاہد کسی ایک شخص کا نام نہیں ہے۔
بی بی سی کی چیف انٹرنیشنل رپوٹر لیس ڈوسیٹ نے کہا کہ یہ باتیں سوشل میڈیا کے زمانے سے پہلے کی ہیں جب رپورٹروں کو ان سے رابطہ کرنے کے لیے لینڈ لائن کا استعمال کرنا پڑتا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جو انسان کیمرے کے سامنے بیٹھا تھا اس کی عمر اتنی نہیں لگتی جتنی کہ اتنے عرصے سے ان سوالوں کا جواب دینے والے شخص کی ہونی چاہیے۔
اس بارے میں لیس ڈوسیٹ کہتی ہیں 'بہت عرصے سے یہ تصور کیا جاتا رہا کہ یہ کوئی فرضی نام ہے اور بہت سارے ذبیح اللہ ہیں جو کہ باری باری سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ یہی وہ ذبیح اللہ مجاہد ہیں۔ لیکن کیا پتہ وہ نا ہوں؟‘
یلدا حکیم کا کہنا ہے کہ چیزوں کو پوشیدہ رکھنا ہی طالبان کی خاصیت ہے۔
'طالبان یہی تو ہیں۔ یہ لوگ منظم اور نظریاتی ہیں۔ حادثاتی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔‘
’ایک شخص کی شناخت کو راز رکھا گیا اور اب اچانک وہ سکرین کے سامنے آگیا۔ اس سے بہتر کہانی آپ نہیں لکھ سکتے۔‘
یلدا حکیم کہتی ہیں کہ ذبیح اللہ مجاہد ایک شخص ہیں یا نہیں اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو ان کے الفاظ تھے وہ اس سے ہوشیار رہیں گی حالانکہ ان کا لہجہ اور انداز نپا تلا تھا۔
'ان سب میں اہم چیز شرعی نظام کی بات تھی۔ اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے ابھی تک اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ یہی تو خاصیت ہے طالبان کی۔ یہ بہت گمراہ کن ہیں اور شیریں بیان بھی۔ انھیں پتہ ہے کہ جس قسم کی زبان استعمال کرنی ہے اور آپ کو کبھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا یقین کرنا چاہیے یا نہیں۔ ان کے گرد تجسس کی ایک فضا ہے، لیکن کیا ہمیں صحیع معنوں میں پتہ ہے کہ یہ کون ہیں؟‘