افغانستان میں طالبان: ’اب وادی پنجشیر میں طالبان کے اجازت نامے کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا‘

  • حمیرا کنول
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
انس ملک

،تصویر کا ذریعہAnas Malik

پنجشیر میں طالبان اور شمالی مزاحمتی فوج کے مابین لڑائی میں تیزی آ گئی ہے اور اتوار کو ہونے والی جھڑپوں میں مزاحمتی فوج کے دو اہم رہنما اور کمانڈر ہلاک ہوئِے ہیں۔

وادی پنجشیر میں داخل ہونا اب آسان نہیں۔ اس کے داخلی دروازے پر اب افغان سکیورٹی فورسز کے گارڈز نہیں بلکہ طالبان ہیں اور وادی میں داخلے کے لیے حاجی حکیم کا اجازت نامہ نہ ہو تو اندر جانا ممکن نہیں۔

طالبان سے لڑنے والی مزاحمتی فورس کے سربراہ احمد مسعود نے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر طالبان پنجشیر اور اندراب پر اپنے حملے روک دیں تو مزاحمتی فورس بھی فوری طور پر جنگ بند کر دے گی۔

پنجشیر اب مواصلاتی طور پر باہر کے علاقوں سے کٹ چکا ہے۔ پنجشیر کے حالات جاننے کی کوشش میں صحافی انس ملک نے وہاں کا دورہ کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اتوار کی صبح نو بجے کے قریب انھوں نے پنجشیر کے سفر کا آغاز کیا جو ساڑھے تین گھنٹے میں مکمل ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ ’پنجشیر سے پہلے پندرہ کلومیٹر کی دوری پر گل بہار ویلی ہے، جو مکمل طور پر بند تھی اور کوئی دکان کھلی دکھائی نہیں دی۔‘

’میں اکتیس دن کے وقفے سے دوبارہ پنجشیر جا رہا تھا۔ اب وہاں جانے والا پورا راستہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔‘

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

’مجھے اسی راستے میں طالبان کا قافلہ ملا اور میں نے ان کے ہمراہ جانے کی اجازت چاہی جو مجھے مل گئی لیکن پنجشیر کی حدود میں داخل ہونے پر مرکزی دروازے پر کھڑے گارڈ نے ہمیں گاڑی سے نیچے اترنے کو کہا۔‘

ایک بات جو صحافی انس ملک نے نوٹ کی وہ سکیورٹی اہلکاروں کے بجائے طالبان کی نفری اور پنجشیر کے مرکزی دروازے پر لگی پھٹی ہوئی تصاویر تھیں۔

’ہم گاڑی سے اترے اور چیک پوسٹ کی جانب بڑھے، جہاں طالبان پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ ان کے چند اضافی سوالات بھی تھے اور وہ آپ سے اجازت نامہ بھی مانگتے ہیں اور اجازت نامہ بھی صرف کمانڈر حاجی حکیم کا۔‘

اجازت نامہ نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا ٹیم کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور تین گھنٹے تک ٹیم کو وہیں بٹھائے رکھا۔

صحافی انس ملک کو جہاں بٹھایا گیا وہاں پنجشیر میں داخل ہونے والی واحد سڑک سے لوگ آ جا رہے تھے۔ وہاں سے آنے والے چند افراد نے انس ملک کو بتایا کہ بازرک میں اس وقت بہت لڑائی ہو رہی ہے اور متعدد اضلاع طالبان کے کنٹرول میں جا چکے ہیں۔

’ایک خاندان کے سربراہ نے بتایا کہ وہ لڑائی سے خوفزدہ ہیں اس لیے بچوں کو لے کر گھر سے نکلے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

انس ملک کا کہنا تھا کہ پنجشیر کی صورتحال کا بغور جائزہ لینے والے ایک افغان صحافی جو اپنا نام ظاہر نہیں کر نا چاہتے، نے انھیں بتایا کہ اگرچہ اس صوبے کے کچھ حصے پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے تاہم ان کے خیال میں آئندہ چند دن بہت اہم ہیں اور اگر سردی شروع ہو گئی تو پھر طالبان کے لیے مشکل ہو گی۔

افغان صحافی نے مزید یہ بھی بتایا کہ ’پنجشیر کے لوگ افغانستان کے دیگر علاقوں سے کچھ مختلف ہیں۔ یہاں لوگوں کی گزر بسر جانور پال کر یا پھر معدنیات سے ہوتی ہے۔ ان کی زبان ہے تو دری لیکن وہ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، ان کا تلفظ ان کے پنجشیر سے تعلق کا پتہ دیتا ہے۔

یہ علاقہ کئی دہائیوں تک جنگ کا شکار رہا ہے۔ سویت یونین، طالبان سمیت جس سے بھی لڑائی ہوئی، پنجشیر کے لوگوں کو کوئی شکست نہیں دے پایا۔

طالبان کے کابل پر کنٹرول سے پہلے تک اسے ملک کا محفوظ ترین علاقہ شمار کیا جاتا تھا۔ جب طالبان ملک کے دیگر حصوں پر قابض ہو گئے تو ایسے میں بہت سے لوگوں نے اس علاقے کا رخ کیا۔

لیکن اس علاقے سے واقف لوگوں کا یہاں طالبان کے حملے سے پہلے بھی یہی کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہر جانب سے پہاڑوں میں گھری اس وادی میں جب سامان کی رسد روکی جائے گی اور مواصلات و بجلی کا نظام بند ہو جائے گا تو زندگی مشکل ہو جائے گی۔

افغان صحافی کے مطابق پنجشیر کے لوگ بہت ملنسار ہیں۔ اگر آپ اس علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو کوئی نہ کوئی مل جاتا ہے جو آپ کو میزبانی کی دعوت دیتا ہے۔

’یہاں دشوار گزار علاقے میں ملنے والے چرواہے آپ کو تازہ مکھن میں بنی روٹی پیش کرتے ہیں اور مہمان کے لیے گوشت اور چاول ضیافت کا حصہ ہوتی ہے جبکہ افغان قہوے کے بغیر یہاں بھی کھانا مکمل نہیں ہوتا۔‘

کہا جاتا ہے کہ پنجشیر میں افغانستان کے مشرقی صوبے نورستان سے بھی داخل ہوا جا سکتا ہے لیکن آسان اور گاڑیوں کے لیے موجود گزر گاہ صوبہ پروان کے راستے سے ہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہTOLO NEWS

،تصویر کا کیپشن

طالبان سے لڑنے والی مزاحمتی فورس کے سربراہ احمد مسعود نے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے

افغان صحافی کے مطابق پنجشیر کی آبادی ایک لاکھ بھی نہیں اور یہاں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہاں آپ کو فقط پنجشیری ہی ملیں گے۔

’پنجشیری آپ کو ملک کے ہر حصے میں مل جائیں گے لیکن پنجشیر میں آپ کو صرف پنجشیری ہیں ملتے ہیں۔‘

افغان صحافی کے مطابق پنجشیر میں قانون اور آئین وہی ہے جو ملک کے دوسرے حصوں میں ہے لیکن دوسری جانب پنجشیر میں اپنے الگ ضوابط بھی ہیں۔

’گورنر اگرچہ حکومت ہی تعینات کرتی ہے لیکن دیگر صوبوں کی طرح فرق یہ ہوتا ہے کہ یہاں فقط پنجشیری ہی گورنر ہو سکتا ہے۔‘

پنجشیری لوگوں کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ زیادہ قدامت پسند رویہ نہیں رکھتے۔ وہاں خواتین حجاب ضرور لیتی ہیں لیکن ان کے بازار اور کام پر جانے کے حوالے سے کوئی مخصوص ضوابط نہیں۔

پنجشیر بزکشی کھیل کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ یہ لوگ موسیقی بہت پسند کرتے ہیں اور ان کا اپنا مخصوص میوزک بھی ہے۔ یہاں تعلیم کا رحجان زیادہ ہے اور طلبا و طالبات پڑھائی کے لیے باہر بھی جاتے ہیں۔

مسعود اہم طالبان سے لڑ تو رہے ہیں لیکن وہ کئی روز سے طالبان سے بات چیت کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں۔

چند روز پہلے تک لوگ اس میدان جنگ کو افغانستان کے دیگر صوبوں سے مختلف قرار دے رہے تھے لیکن اب طالبان کے اس دعوے کے بعد کہ وہاں سات میں سے پانچ اضلاع پر ان کا کنٹرول ہے، لوگ اس جنگ کے آج کل میں ختم ہونے کی بات کر رہے ہیں۔