ایران کے اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری ملک چھوڑنے پر مجبور کیوں؟

ایران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایران سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں

ایران کو ملک چھوڑ کر جانے والوں یا ’برین ڈرین‘ کی نئی لہر کا سامنا ہے جو کووڈ 19 کی عالمی وباء کے دوران بھی جاری رہی۔

ملک چھوڑ کر جانے والوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت جن میں ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر اور تربیت یافتہ نرسیں بھی شامل ہیں جو ایرانی حکومت کے لیے ایک تشویش ناک بات ہے۔

ماہرین اور ذرائع ابلاغ میں اس کو ایک بحران کی طرح دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے ایران میں بہت سے جگہوں پر ڈاکٹروں کی شدید کمی واقع ہو جائے۔

ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے کہا ہے کہ حکومت کو اس صورت حال کے پیش نظر ہو سکتا ہے بیرونی ممالک سے طبی عملہ بھرتی کرنا پڑے اور علاج کے لیے لوگوں کو بیرون ملک بھیجنا پڑے۔

یہ بھی پڑھیے

ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اس کو ملک سے بے وفائی قرار دے رہے ہیں اور اس کا الزام کچھ عناصر پر عائد کر رہے جو ان کے بقول یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ملک چھوڑنے پر اکساتے ہیں۔

ایک سخت گیر ہفتہ روزہ اخبار نے رہبر اعلیٰ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مغربی طاقتیں ایران کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں اور اعلیٰ تعیلم یافتہ لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقعوں کی لالچ دے کر انھیں ملک چھوڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

ایک سرکاری اخبار نے اس کا حل تجویز کرتے ہوئِ کہا ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ لوگوں جو ملک چھوڑ کر جانے کی تیاریاں کر رہے ہوں ان پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں کیونکہ ان کی تعلیم پر ملکی وسائل صرف کیے جاتے ہیں جن کو انھیں واپس کرنا چاہیے۔

ملک چھوڑ کر بیرون ملک ہجرت کرنے والوں کی نئی لہر سے ملک کے صدر ابراھیم رئیسی کے لیے نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں جو نوجوانوں کو یہ یقین دہانی کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت نوجوان نسل کے لیے روش مستقبل بنانے کے بارے میں پر عزم ہے۔

ہو کیا رہا ہے؟

ایران کے لیے 'برین ڈرین' یا تعلیم یافتہ لوگوں کا ملک سے چلے جانا کوئی نئی بات نہیں۔ ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد وقتاً فوقتاً ایسا ہوتا رہتا ہے کیونکہ انقلاب کے ابتدائی دنوں ملک افراتفری اور ابتری کا شکار رہا اور اس کے بعد آٹھ سال تک ملک عراق سے جنگ میں الجھا رہا۔

ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں 'برین ڈرین' کے حوالے سے ایران کا نمبر بہت اوپر ہے۔ ذرائع ابلاغ سرکاری اہلکاروں اور بین الاقوامی اداروں کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران سے ہر سال پندرہ سے اٹھارہ لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان ملک چھوڑ کر بیرونی ممالک کا رخ کر لیتے ہیں۔

تھوڑے تھوڑے عرصے بعد مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ملک سے چلے جانے کی خبریں سرخیوں میں نظر آتی ہیں۔ ان میں کبھی اتھلیٹ، اخبارنویس اور طبی عملے کے افراد شامل ہوتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہKHAMENEI.IR

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

صحت عامہ کے نگران ادارے میڈیکل کونسل آف اسلامک رپبلک آف ایران کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہر سال اس ادارے کو تین ہزار سے زیادہ اچھے کردار کے سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں اور یہ درخواسین ان کے عملے کے ان ارکان کی طرف سے دی جاتی ہیں جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔

محمد رئیسزادہ نے طویل اوقات کار، نائٹ شفٹ اور غیر تسلی بخش اجرتوں کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

رئیس زاد نے اس تاثر کو رد کیا کہ لوگ عالمی وبا کی وجہ سے ملک چھوڑ رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا یہ تو زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ چیزوں کو بہتر کرنا ہو گا ورنہ کوئی فرق نہیں پڑے گا بیشک یونیورسٹیوں سے زیادہ لوگ فراغ تحصیل ہونے لگیں۔

حکام نے ڈاکٹروں میں پائی جانے والی افسردگی کے بارے میں خبر دار کیا اور منتخب اراکین کو آگاہ کیا ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی کمی کا ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے جس سے نئے ماہرین پیدا کرنا بھی دشوار ہو جائے گا۔

حسین علی شاہراہی نے جو صحت کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ ہیں، رہبر اعلی کے نام کے ایک خط لکھا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ عام معالجین میں کسی ایک طبی شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کم ہو رہا ہے اور یہ رجحان کو سنہ 2017 سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انھوں نے اعلیٰ اداروں میں داخلوں کی پالیسی، لمبی شفٹوں اور کئی دوسری عوامل کو اس کی وجہ قرار دیا۔

انھوں نے بھرتی کے نئے طریقے اپنانے، داخلوں کی پالیسی تبدیل کرنے اور تنخواہوں میں اصلاحات کرنے کی تجاویز دیں ہیں۔

ہم شہری نامی آن لائن نے 23 نومبر کو خبر دی تھی کہ دس سے پندرہ ڈاکٹر یا تو بے روز گار ہیں یا نوکری چھوڑ چکے ہیں۔ اس ویب سائٹ کے مطابق ایک ڈاکٹر کی تنخواہ اسی لاکھ تومان بنتی ہے جو کہ صرف 285 ڈالر کے برابر ہوتے ہیں اور یہ ان ڈاکٹروں کی تنخواہ ہے جو سرکاری نوکریاں کرتے ہیں جس میں وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔

سینٹرل بینک کے ڈیٹا کے مطابق ایران میں ڈاکٹروں کو نجی طور پر بھی کام کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ دو کروڑ تومان ماہانہ کما سکیں اور وہ اگر اس سے زیادہ کمائی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں پلاسٹک سرجری میں مہارت حاصل کرنا پڑتی ہے۔

طبی شعبوں سے تعلق رکھنے والا دیگر عملہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ اس سال اپریل میں ایک سرکاری اہلکار نے آئی ایل این اے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ایک ہزار نرسیں گزشتہ سال عالمی وبا اور گرتے ہوئے معیار زندگی کی وجہ سے ملک سے چلی گئیں ہیں۔

نرسوں کی سپریم کونسل کے سربراہ حمید رضا عزیر نے کہا کہ ہر ماہ سو سے ایک سو بیس نرسیں ایران سے جا رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ رجحان بہت پریشان کن ہے۔

پیشہ وار افراد کی صورت حال کیا ہے؟

تدریس کے شبعے سے تعلق رکھنے والے بھی بے روزگاری یا ناکافی اجرتوں سے پریشان ہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔

کچھ ارکان پارلیمان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو بھی ناکافی تنخواہیں ملی رہی ہیں۔ ایک رکن پارلیمان کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر سائنس اور مکینکس کی تعلیم دینے والی یونیورسٹیوں کا 30 فیصد عملہ نوکریاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

اس سال مارچ میں ہمدلی نامی روزنامے نے امان قرائی مقدم جو ایک مشہور ماہر سماجیات ہیں ان کی اس بارے میں دوسروں سے ذرا مختلف ہے۔ انھوں نے کہا کہ مالی مشکلات اس صورت حال کی بڑی وجہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ تدریسی شعبے سے لوگ اس لیے نوکریاں چھوڑنے پر مجبور ہیں کیونکہ فیصلہ سازوں کے پاس تعلیمی قابلیت اور اہلیت نہیں ہے اور وہ معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔

با صلاحیت طلبہ کو کیا صورت حال درپیش ہے؟

سٹوڈنٹ نیوز نیٹ ورک (ایس این این) نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر اولپمکس کھیلوں میں ایران کے لیے تمغے جیتنے والے کھلاڑیوں میں 56 فیصد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یونیورسٹی کے طلبہ جنہوں نے داخلے کے امتحانات بہترین نمبروں سے حاصل کیے تھے ان میں 78 اعشاریہ تین فیصد گریجویشن کے بعد ملک سے چلے گئے ہیں۔

ایک اور آن لائن نیوز سروس راوی پر شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں نوجوان کی اکثریت سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا کبھی انھوں نے ملک چھوڑ کر جانے کے بارے میں سوچا تو انھوں نے ہاں میں جواب دیا۔

پارلیمان میں حال ہی میں ایک متنازع قانون پیش کیا گیا ہے جس میں غیر ملک آن لائن سروس کو بند کریں یا ان میں خلل ڈالنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس سے آئن لائن پر ہونے والے کاروبار پر اثر پڑے گا ۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر ایران میں پہلے ہی سے پابندی عائد ہے۔

ایران کے صدر کی طرف سے بہتر مستقبل کے وعدے اپنی جگہ پر لیکن نوجوان نسل اپنے مستقبل کو کامیاب بنانے کے لیے ملک سے باہر دیکھ رہی ہے۔