جنرل بپن راوت: کیا انڈین فوج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف کی اچانک موت سے انڈیا کی چین پالیسی متاثر ہو گی؟

  • دلنواز پاشا
  • بی بی سی ہندی، نئی دہلی
جنرل راوت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈین آرمی کے چیف آف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت کی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاکت انڈین فوج کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کا ازالہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔

جنرل راوت کی موت آٹھ دسمبر کو ریاست تمل ناڈو میں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہوئی تھی۔ اس حادثے میں جنرل راوت کی اہلیہ سمیت کل 13 افراد مارے گئے تھے۔

انڈیا کے پہلے سی ڈی ایس جنرل راوت کو وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں اس عہدے کے لیے منتخب کیا تھا۔ اس سے قبل مودی حکومت نے انھیں سنہ 2016 میں دو افسران پر ترجیح دے کر ملک کا آرمی چیف بنایا تھا۔

جنرل راوت نے چین کے خلاف جارحانہ پالیسی پر انڈیا کی قیادت کی اور سنہ 2017 میں ڈوکلام اور 2020 میں گلوان وادی میں چینی جارحیت کا مقابلہ کیا۔

انڈیا کے دفاعی تجزیہ کار برہم چیلانی نے ان کی موت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ 'انڈیا کے سی ڈی ایس جنرل راوت کی ہلاکت ایک مشکل وقت میں ہوئی ہے جب سرحد پر چین کے 20 ماہ سے جاری جارحانہ رویے نے ہمالیائی خطے کو متاثر کیا ہے۔ محاذ پر جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔'

ایک اور ٹویٹ میں چیلانی نے کہا کہ 'جنرل راوت صاف اور واضح ویژن کے ساتھ چین کی جارحیت کے خلاف انڈیا کا چہرہ تھے۔ جہاں سیاسی قیادت کی زبان سے 'چین' لفظ تک نہیں نکل رہا تھا، وہیں جنرل راوت واضح طور پر اس کا نام لے رہے تھے۔'

جون 2017 میں اروناچل پردیش کے ڈوکلام میں انڈیا اور چین کی فوجیں آمنے سامنے آگئیں تھی۔ اس کے بعد جون 2020 میں لداخ کی وادی گلوان میں دونوں فوجوں کے درمیان براہ راست جھڑپ میں 20 انڈین فوجی مارے گئے تھے جب کہ کئی چینی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چین نے جون 2020 میں ہونے والی جھڑپ کی تصویر سنہ 2021 میں جاری کی

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ان واقعات کے بعد سے انڈیا اور چین کے درمیان فوجی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں میں چین عسکری طور پر طاقتور ہوا ہے اور چین نے بھی انڈین سرحد کے قریب اپنی فوجی تعیناتی اور تعداد بڑھا دی ہے۔

اس کے جواب میں انڈیا نے بھی ہمالیہ کے بلند علاقوں میں بڑی تعداد میں فوجی تعینات کر دیے ہیں اور چین کی سرحد تک رسائی کے لیے سڑکیں بنائی ہیں۔

جنرل بپن راوت چینی جارحیت کے جواب میں انڈیا کی فوج کے جواب اور تیاری کی قیادت کر رہے تھے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کی موت سے چین کے حوالے سے انڈیا کی حکمت عملی متاثر ہو سکتی ہے۔

لیکن کچھ تجزیہ کار ایسا نہیں مانتے۔ دفاعی تجزیہ کار ادے بھاسکر کہتے ہیں، 'مجھے نہیں لگتا کہ جنرل راوت کی موت سے چین کی طرف انڈیا کی پالیسی پر کوئی خاص اثر پڑے گا۔ ایک افسر کی موت سے حکمت عملی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کی اپنی اہمیت ہوگی، لیکن اہم بات یہ ہے کہ کس طرح انڈیا اپنی قومی سلامتی سے متعلق مسائل سے نمٹتا ہے کیونکہ انڈیا ابھی تبدیلی کے مرحلے میں ہے۔ جب کوئی بھی ادارہ تبدیلی کے دور میں ہوتا ہے تو کہیں نہ کہیں کمزوری ضرور ہوتی ہے۔'

انڈیا کی وزارت دفاع کے تحت چلنے والے منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفینس سٹڈیز اینڈ انالیسز کے ریسرچ سکالر کمال مدیشٹی کا ماننا ہے کہ جنرل راوت کی موت انڈین فوج کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے، لیکن اس کا چین کے حوالے سے فوج کی پالیسی یا تیاری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

کمال مدیشیٹی کہتے ہیں کہ 'جنرل راوت کے دور میں، چین کے بارے میں ایک سٹریٹجک وضاحت تھی کہ چین انڈیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ یہ بات پچھلے دو برسوں میں زیادہ واضح ہو رہی تھی۔ جنرل راوت اپنے پیچھے ایک وراثت چھوڑ کر گئے ہیں اور ان کے بعد جو بھی نیا چیف آف ڈیفنس سٹاف بنے گا وہ ان ہی کی پالیسی کو آگے بڑھائے گا ہمیں اس میں ابھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔'

مدیشیٹی کہتے ہیں کہ 'نئی دہلی میں پالسی سازوں میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین انڈیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور یہ خطرہ وقت کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ انڈیا کی فوج کے پاس کمانڈ سسٹم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، چین کے حوالے سے انڈیا کی پالیسی جاری رہے گی۔'

،تصویر کا ذریعہPress Trust of India

جنرل راوت کی موت کو انڈین فوج کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے کمال مدیشیٹی کا کہنا ہے کہ 'جنرل راوت کی موت انڈین فوج اور ملک کے لیے بہت بڑا نقصان ہے، یہ اس مشینری کے لیے بھی بڑا دھچکا ہے جو ملک کی سکیورٹی پالیسی کا تعین کرتی ہے۔ وہ ملک کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ میں تبدیلیاں اور اصلاحات لا رہے تھے۔ انڈیا یقیناً ان کی قیادت کی کمی محسوس کرے گا۔ لیکن فوج کی کمان کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ عسکری قیادت ان کی غیر موجودگی میں ذمہ داری سنبھالے گی۔'

دوسری جانب کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنرل راوت کی موت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب انڈیا کے سامنے چین کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مغربی پڑوسی پاکستان بدستور سکیورٹی کے لیے خطرہ ہے اور افغانستان میں طالبان کے مضبوط گڑھ نے خطے میں سکیورٹی کے توازن کو متاثر کیا ہے۔

مدیشیٹی کہتے ہیں کہ 'یہ سچ ہے کہ گذشتہ سال انڈیا کے لیے بہت مشکل رہا۔ انڈیا کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج چین کی طرف سے ہے۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ افغانستان اور انڈیا کی سکیورٹی صورتحال نے بھی انڈیا کے سکیورٹی خدشات میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود جنرل راوت کی موت سے انڈیا کے سکیورٹی نظام کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ ملک کی فوج کے پاس ایک قابل قیادت ہے جو چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔'

،تصویر کا ذریعہANBARASAN/BBC

جنرل راوت انڈیا کے پہلے چیف آف ڈیفنس سٹاف تھے۔ اس کردار میں ان کا سب سے بڑا کام فوج کے تینوں شعبوں (بری فوج، فضائیہ اور بحریہ) کو مربوط کرنا اور فوج سے متعلق پالیسی فیصلے لینا تھا۔

وہ انڈیا کے سکیورٹی سے متعلق معاہدوں اور سودوں میں بھی اہم کردار ادا کر رہے تھے اور ملک کی فوج کو بھی جدید بنا رہے تھے۔

چیف آف ڈیفنس سٹاف کے عہدے کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے، ادے بھاسکر کہتے ہیں کہ 'انڈیا میں چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے جیسا نہیں ہے کیونکہ یہ آپریشنل کمانڈ کی قیادت نہیں کرتا بلکہ فوج کے مختلف حصوں کو مربوط کرتا ہے۔ دراصل سی ڈی ایس انڈین حکومت کے سکریٹری ہیں۔‘

جنرل راوت کی قیادت میں حال ہی میں انڈیا نے روس کے ساتھ ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کا معاہدہ کیا اور اب یہ انڈیا کو فراہم کیا جا رہا ہے۔

کیا جنرل راوت کی موت سے انڈیا کے سکیورٹی معاہدوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے؟ اس سوال پر مدیشیٹی کا کہنا ہے کہ 'جنرل راوت انڈین فوج کو جدید بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ ان کے جانے سے اس عمل میں کچھ وقتی تاخیر ہو گی لیکن اس کا ملک کے دفاعی معاہدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ برسوں سے یہ بات چیت چل رہی ہے۔ دفاعی ساز و سامان کی خریداری کو بہتر بنانے کا ایجنڈا جاری رہے گا۔'

ادے بھاسکر کا کہنا ہے کہ 'انڈیا کو جنرل راوت کی موت کا صدمہ ایسے وقت میں پہنچا ہے جب چین کی طرف سے واضح خطرہ ہے۔ میرے خیال میں جنرل راوت کی موت سے انڈیا کی حکمت عملی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن دفاعی معاملات کے انتظام پر ضرور اثر ہو گا۔'

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بھاسکر کہتے ہیں کہ 'یہ پہلا موقع تھا جب انڈیا نے کسی سی ڈی ایس کی تقرری کی تھی۔ اس وقت انڈیا اس نظام کو بنانے کے عمل میں ہے۔ جب تک حکومت ایک نئے سی ڈی ایس کی تقرری نہیں کرتی تب تک جو دوسرا لیڈر ہے وہ خود بخود انچارج بن گیا ہے۔ اس نظام کو مزید بہتر کرنا باقی ہے۔'

حکومت نے کہا ہے کہ نئے چیف آف ڈیفنس سٹاف کا اعلان اگلے ایک ہفتے کے اندر کر دیا جائے گا۔ دفاعی تجزیہ کار ادے بھاسکر کا خیال ہے کہ اگر حکومت جلد ہی نئے سی ڈی ایس کا اعلان نہیں کرتی ہے تو اس سے الجھن پیدا ہو سکتی ہے۔

ادے بھاسکر کا کہنا ہے کہ 'انڈیا کی فوج اور سپاہی اب بھی جنرل راوت کی موت کے غم میں ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے حوصلے پست ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اگلے ایک ہفتے میں نئے سی ڈی ایس کا اعلان نہیں کرتی تو پھر یقینی طور پر فوج کو ایک منفی پیغام جائے گا۔'