کیا انڈیا میں کنڈوم کے استعمال نے خواتین سے خاندانی منصوبہ بندی کا بوجھ کم کر دیا؟
- سشیلا سنگھ
- بی بی سی
انڈیا میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے NFHS-5 کے مطابق، ملک میں مانع حمل ادویات اور طریقوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ سروے کے مطابق جہاں مجموعی طور پر مختلف طریقوں سے حمل روکنے میں 13.2 فیصد اضافہ ہوا ہے وہیں جدید طریقوں میں 8.7 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دوسری طرف، اگر ہم خواتین کی نس بندی اور کنڈوم کے استعمال کے بارے میں بات کریں، تو انڈیا کے گذشتہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مقابلے اوسطاً اس میں 1.9 فیصد اور 3.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایسے میں کیا تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی میں خواتین پر ڈالی جانے والی ذمہ داری میں کمی آئی ہے؟
اس شعبے میں کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ کنڈوم کے استعمال کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن پھر بھی کنڈوم کا استعمال خواتین کی نس بندی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
چنانچہ ان اعداد و شمار سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ مرد اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں آگے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
کنڈوم کے استعمال میں اضافہ
پنجاب، اتراکھنڈ، دہلی اور گوا کچھ ایسی انڈین ریاستیں ہیں جہاں کنڈوم کے استعمال میں اوسطاً 20 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اسی دوران، آسام اور مغربی بنگال میں خواتین کی تعداد میں مانع حمل گولیاں استعمال کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر پونم مٹریجا کا خیال ہے کہ کنڈوم کا استعمال خواتین کی نس بندی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ اعداد و شمار کے ذریعے اپنی بات کی وضاحت کرتی ہیں، ‘67 فیصد خواتین نس بندی سے گزرتی ہیں۔ 2015 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انڈیا میں ہر سال 1.69 کروڑ اسقاط حمل کیے جاتے ہیں۔ کنڈوم، اسے پراکسی سمجھا جاتا ہے، خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہی ضرور بڑھی ہے، لیکن اس کا بوجھ اب بھی خواتین پر ہے۔‘
خواتین کی ذمہ داری
ممبئی میں صحت سے متعلق مسائل پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سی ای ایچ اے ٹی کی محقق سنجدہ اروڑا کہتی ہیں کہ خواتین کی نس بندی اب بھی خاندانی منصوبہ بندی کے لیے ایک عام طریقہ ہے۔
’آج بھی انڈیا کے سماجی ماحول میں خاندانی منصوبہ بندی کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ وہ نس بندی کروائے گی۔‘
بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں بہار کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ‘بہار میں شرح پیدائش زیرِ بحث ہے۔ اگر ہم یہاں خواتین کی نس بندی کا موازنہ پچھلے سروے سے کریں، تو اس میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد تقریباً 35 فیصد ہے۔ جو کنڈوم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔‘
ساتھ ہی، وہ بتاتی ہیں کہ اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ملک کووڈ-19 سے لڑ رہا تھا اور اس کا اثر صحت کی سہولیات پر بھی پڑا تھا۔
‘لیکن اس کے باوجود خواتین کی نس بندی کی تعداد بڑھی ہے۔ آپ سوچیں کہ اگر کووڈ نہ ہوتا تو اس میں کتنا اضافہ ہوتا؟‘
پونم متریجا بھی سنجدہ سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ حکومت کو اس سمت میں کام کرنا چاہیے اور مردوں میں کنڈوم کے استعمال سے متعلق افواہوں کو ختم کرنے کے لیے آگے جانا چاہیے۔
جنوبی انڈیا کی خواتین
صرف خواتین کی نس بندی کی بات کریں تو اس سروے میں جنوبی انڈیا کی خواتین اس معاملے میں آگے نظر آتی ہیں۔ NFHS-5رپورٹ تیار کرنے والی تنظیم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز میں پروفیسر ایس کے سنگھ اس کی بنیادی وجہ بتاتے ہیں کہ ‘جنوب میں آبادیاتی تبدیلی بہت پہلے ہو چکی ہے، جیسا کہ تکنیکی تعلیم میں شرح پیدائش اور اموات کی بلند شرح۔ (خاص طور پر خواتین) اور معاشی ترقی سے ہونے والی تبدیلیاں جیسے کئی مراحل بھی شامل ہیں۔‘
‘چھوٹے خاندان کی پالیسی پہلے ہی جنوب میں اپنائی گئی ہے لیکن شمال اور شمال مشرقی انڈیا اس میں بہت پیچھے ہیں۔‘
کنڈوم کے استعمال پر پروفیسر ایس کے سنگھ کا کہنا ہے کہ 'کنڈوم کا زیادہ استعمال وہ لوگ کر رہے ہیں جو بچوں میں فرق کرنا چاہتے ہیں اور جو محسوس کرتے ہیں کہ ان کا خاندان مکمل نہیں ہے۔‘
‘اس کے علاوہ، ایچ آئی وی پر قابو پانے کے منصوبے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور منصوبہ بندی کے جو طریقے خواتین کے لیے دستیاب ہیں اتنے مردوں کے لیے نہیں ہیں۔‘
بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی شرح میں کمی
ساتھ ہی یہ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ انڈیا میں شرح پیدائش میں بھی کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے سنجدہ اروڑہ کہتی ہیں کہ ’یہ دیکھا گیا ہے کہ اوسطاً خواتین دو بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں مانع حمل ادویات کے استعمال میں اضافہ اور شادی میں تاخیر شامل ہے جس کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔‘
ایس کے سنگھ کہتے ہیں ‘انڈیا میں، 16 فیصد شادی شدہ خواتین نے بچہ پیدا کرنے کے بعد نس بندی کرائی ہے، جن میں سے 10 فیصد کا پہلے بیٹا اور چھ فیصد کی پہلے بیٹی ہوئی تھی۔‘
‘اگر کوئی جوڑا مانچ حمل کے دوسرے طریقوں کے بجائے براہ راست نس بندی کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ انھوں نے ایک چھوٹا خاندان رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ساتھ ہی، پونم متریجا اور ایس کے سنگھ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ جن خواتین نے 12ویں تک تعلیم حاصل کی ہے ان میں شرح پیدائش 2.2 ہے، جب کہ غیر تعلیم یافتہ خواتین میں شرح پیدائش 3.7 ہے۔
آبادی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات؟
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت آبادی کنٹرول سے متعلق بل کا مسودہ لے کر آئی ہے۔
اتر پردیش پاپولیشن کنٹرول، سٹیبلائزیشن اینڈ ویلفیئر بل میں کئی ترامیم کی گئی ہیں اور 'دو بچوں کی پالیسی' کو لاگو کرنے کی بات کی گئی ہے۔
پونم متریجا کا خیال ہے کہ آبادی مستحکم ہو رہی ہے، لیکن ہمیں یہ بھی نوٹ کرنا ہو گا کہ انڈیا میں تقریباً 70 فیصد آبادی نوجوان ہے۔ ‘ایسے میں اگر ان کے دو بچے بھی ہوں تو آبادی بڑھے گی۔‘
ایس کے سنگھ کے مطابق، کوئی بھی ریاستی حکومت آبادی کی پالیسی لا سکتی ہے جس سے اس کی گورننس میں مدد مل سکتی ہے، لیکن آبادی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کے مطابق ‘سرکاری ملازمتوں، سرکاری نمائندگی یا سرکاری سکیموں کا فائدہ نہ دینے جیسے سخت حکومتی اقدامات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جہاں ملک کی شرح پیدائش 2.0 ہے، وہیں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست یوپی میں یہ 2.4 ہے۔ اور بہار 3.0 کی شرح پر ہے۔‘
پونم متریجا کا مزید کہنا ہے کہ آبادی کو کسی کمیونٹی کے حوالے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
وہ کیرالہ کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں ‘کیرالہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی شرح پیدائش برابر ہے، کیونکہ وہاں خواندگی، تعلیم، صحت، اور نظم و نسق کی بہتر سہولیات ہیں۔
‘اس کے ساتھ ہی اگر آپ اتر پردیش اور بہار کو دیکھیں تو وہاں بھی شرح پیدائش یکساں طور پر نظر آتی ہے۔‘
ساتھ ہی ان کا ماننا ہے کہ 'یو پی اور آسام میں دو بچے والی پالیسی یا لالچ دینے کی پالیسی لانے کی بات ہو رہی ہے، اس سب کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ جو کچھ ہم جنوبی ہندوستان میں دیکھتے ہیں وہ طاقت سے کیا گیا ہے؟
‘ایسے میں حکومت کو خاندانی منصوبہ بندی کے بہتر طریقوں جیسے کہ لڑکیوں کی تعلیم، صحت کے بہتر ذرائع اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے۔‘