انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں پولیس کی بس پر عسکریت پسندوں کا حملہ
- ماجد جہانگیر
- رامابن سے بی بی سی ہندی کے لیے
غم میں ڈوبے غلام حسین کے گھر والے
'میں تو اپنے ابو کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ آئیں گے تو ان سے ملاقات ہوگی، وہ آئے تو لیکن کفن میں لپٹے ہوئے۔ اب کس سے گلے ملوں؟ کچھ دن پہلے فون پر اپنے پوتوں کو گلے لگانے کے بارے میں بات کر رہے تھے لیکن وہ تو ایک لاش بن کر گھر آئے ہیں'۔
یہ الفاظ ایک پچیس سالہ خاتون زبیدہ کے ہیں جن کے والد غلام حسین بٹ پیر کو سری نگر میں عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
پولیس کے مطابق پیر کو سری نگر میں تین عسکریت پسندوں نے جموں و کشمیر پولیس کی بس پر حملہ کیا جس میں تین پولیس اہلکار ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے تھے۔
پولیس کے مطابق جس بس پر حملہ ہوا اس میں 25 پولیس اہلکار سوار تھے۔ یہ بس جیون سے پنتھا چوک جا رہی تھی۔
ان کا بیس کیمپ حملے کی جگہ سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جس علاقے میں یہ حملہ ہوا وہاں پولیس اور سکیورٹی فورسز کے کئی کیمپ اور دفاتر واقع ہیں۔
پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ عسکریت پسند پولیس کی بس میں گھس کر ان کا اسلحہ چھیننا چاہتے تھے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ جیش محمد کی ایک تنظیم کشمیر ٹائیگرز نے کیا ہے۔
دفعہ 370 ہٹائے جانے اور پلوامہ حملے کے بعد یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔
ترنگے میں لپٹی لاش گھر پہنچی
سری نگر سے تقریباً 140 کلومیٹر دور ضلع رامبان کے برتھنڈ گاؤں کی خوبصورت وادیوں کے درمیان غلام حسین کے گھر والوں کی آہیں، درد، آنسو اور سسکیاں گھر کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھیں۔
غلام حسین کے دو منزلہ گھر کے اندر اور باہر رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کا ہجوم جمع تھا۔
ترنگے میں لپٹی غلام حسین کی میت کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد آ رہی تھی اور لوگ نم آنکھوں کے ساتھ انھیں الوداع کہہ رہے تھے۔
کمرے کے ایک کونے میں سِمٹی زبیدہ کہتی ہیں'کشمیر میں ہی حالات خراب کیوں رہتے ہیں؟ جب بھی ہم کوئی خبر سنتے ہیں، وہ کشمیر کی خراب حالات کی ہوتی ہے۔ ہمیں انصاف چاہیے، افسوسناک خبر یں صرف کشمیر سے ہی آتی ہیں ہے۔ پورے انڈیا کی سیکورٹی کشمیر میں تعینات ہے اور ہمارے والد کشمیر میں ڈیوٹی پر تھے انہیں بھی مار دیا گیا'۔
غلام حسین کے دو منزلہ گھر کے اندر اور باہر رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کا ہجوم
ان کا کہنا تھا ’کشمیر میں جب کوئی مرتا تھا تو ہم کہتے تھے کہ اس کے گھر والوں کا کیا بنے گا، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمارے والد کو بھی کشمیر میں ماردیا جائے گا اب ہم اپنے پاپا کو کہاں دیکھ پائیں گے؟ ہم انصاف چاہتے ہیں'۔
پولیس کی بس جس پر حملہ ہوا تھا
تین سال بعد ریٹائر ہونے والے تھے
غلام حسین گزشتہ پینتیس سال سے پولیس میں کام کر رہے تھے اور اس وقت اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے پر تھے۔ وہ 2024 میں ریٹائر ہونے والے تھے۔
غلام حسین کے چھوٹے بیٹے شاہد نے جب تابوت میں اپنے والد کی لاش دیکھی تو وہ کانپنے لگے۔
غلام حسین بٹ کی بیٹی زبیدہ
والدکو کفن میں لپٹا دیکھ کر زمین پر گر پڑے
شاہد بلک بلک کر رو رہے تھے اور انکے ارد گرد لوگ انہیں پانی پلا رہے تھے۔ وہ کچھ کہنے کے قابل نہیں تھے جیسے انکی دنیا ہی لُٹ گئی ہو۔
غلام حسین کی بیوی شریفہ کمرے میں موجود عورتوں کے درمیان کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں انکی دنیا اجڑنے کا ماتم انکی ویران آنکھوں اور خشک ہونٹوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔
شریفہ کی آنکھوں میں جیسے آنسو رک گئے تھے اور شاید وہ اپنے بچوں کو حوصلہ دینے کے لیے اندر ہی اندر رو رہی تھیں۔
ملک کے لیے جان دینے کا شکر
حسین کے بڑے بھائی غلام حسن بٹ اپنے بھائی کے جانے سے تنہا محسوس کر رہے تھے۔
انکا کہنا تھا کہ ’میرا بھائی اور میں گذشتہ پچاس سال سے ایک ساتھ رہتے تھے۔چار مہینے پہلے ہی ہم نے الگ الگ رہنا شروع کیا تھا۔لیکن اب وہ مجھے اس دنیا میں ہی اکیلا کر گئے‘۔
'اب اس بات پر اطمینان ہے کہ وہ ملک کے بہادر سپاہی مانے جائیں گے اگر وہ بھاگتے تو غدار کہلاتے شکر ہے کہ انہوں نے دیش کے لیے اپنی جان دی'۔
یہ پوچھے جانے پر کے کشمیر میں ڈیوٹی کرنے سے آپ کتنے فکر مند رہتے تھےان کا کہنا تھا کہ 'یہ تو ہم کو معلوم تھا کہ جس نے بیلٹ پہنی ہے اور بندوق اٹھائی ہے اس کو گولی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب بھی ہم سنتے تھے کہ کشمیر میں انکاؤنٹر ہو رہا ہے تو ہماری نبض ڈوبنے لگتی تھی۔ کشمیر میں ڈیوٹی کرنا بہت مشکل کام ہے'۔
غلام حسین کے لواحقین میں بچے اور ان کی بیوی شامل ہیں ان کا ایک بیٹا انڈین فوج میں کام کرتا ہے۔
جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اس حملے کی سخت مذمت کی ہے اور متاثرین کے گھروالوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا ہے۔