’مودی بولیں اور دوسرے صرف سنیں‘

بھارت میں مئي کے تاریخی انتخابات میں فتح کے بعد نریندر مودی کی میڈیا سے پہلی ملاقات کئی وجوہات سے دلچسپ رہی۔
بعض مخصوص صحافیوں کو جمعے کے روز کو SMS پیغامات ملے، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ پروگرام وزیر اعظم کے ساتھ ایک ’غیر رسمی بات چیت‘ پر مبنی ہے۔
بعد میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ دیوالی کے موقع پر ایک غیر رسمی ملاقات ہوگی اور ہمیں صبح پونے گیارہ بجے بی جے پی کے اشوک روڈ پر واقع دفتر پہنچنے کے لیے کہا گیا۔
جب میں سخت سکیورٹی کے بعد وہاں پہنچا تو یہ واضح ہو گیا کہ یہاں کوئی ’غیر رسمی بات چیت‘ 'نہیں ہونے جا رہی تھی، بلکہ ایک بڑے شاميانے کے نیچے رسمی تقریب ہونے جا رہی ہے۔
دو ٹی وی سکرینیں اور ان کے پیچھے مودی اور امت شاہ کے پوسٹر لگے تھے سامنے خالی کرسیاں رکھ دی گئی تھیں اور بہت سے صحافیوں اور ٹی وی ٹیموں کو مدعو کیا گیا تھا۔
سب سفید کپڑے والی ٹیبل کے گرد بیٹھ گئے اور مودی کا انتظار کر نے لگے۔ اب تک بالکل واضح ہو چکا تھا کوئی ’غیر رسمی بات چیت‘ نہیں ہونے جا رہی ہے۔
اس کے بجائے مودی اپنے انداز میں صحافیوں سے خطاب کرنے والے تھے اور انھوں نے وہی کیا۔ وہ دوپہر کے وقت وہ شامیانے میں آئے اور صحافیوں سے خطاب کرنا شروع کر دیا۔
اس میں کوئی حیرت کا مقام نہیں کہ انھوں نے اپنے ’صاف ستھرے بھارت مہم‘ کی بات کی جو ان کے دل کے قریب ہے۔
انھوں نے اس کے متعلق لکھنے کے لیے صحافیوں اور کالم نگاروں کی تعریف کی اور کہا کہ اس مہم کے تعلق سے شائع ہونے والی تفصیلی خبریں دراصل ’ایک اچھی مثال ہے کہ صحافت ایک تخلیقی کردار ادا کر رہا ہے۔‘
صحافیوں نے پرسکون انداز میں سنا۔ مودی نے کہا: ’آپ نے اپنی قلم کو ایک جھاڑو میں تبدیل کر دیا ہے۔‘
بہرل حال وہاں موجود صحافیوں میں سے بہتوں نے ایک بھی ڈھنگ کی خبر صاف بھارت مہم پر نہیں لکھی تھی، لیکن انھیں عوامی صحت اور حفظان صحت کے اثرات پر واعظ سنائے جا رہے تھے۔
وزیر اعظم مودی ایک بار پھر سے احکامات دے رہے تھے۔ بلاشبہ اس میں کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔
دس منٹ کی تقریر کے بعد مودی بھیڑ میں شامل ہو گئے، صحافیوں سے گھلتے ملتے رہے اور بہت سے صحافیوں کے ساتھ سیلفی کی اجازت دے کر ان پر احسان کرتے رہے۔
پشت کی جانب حکومت کے بعض سینئر وزیر راج ناتھ سنگھ، سشما سوراج اور ارون جیٹلی بھی تھوڑی دیر کے لیے نظر آئے۔
وہ خبروں کے بھوکے صحافیوں سے کالے دھن پر، مودی کے مستقبل بیرونی دوروں پر، توانائی کے بحران پر اور بردوان بم دھماکے پر کہیں بامعنی بات کر رہے تھے۔
اس سے قبل تقریر کے دوران وزیر اعظم نے یاد کیا کہ کبھی پارٹی کارکن کے طور پر وہ پریس کانفرنس میں کس طرح صحافیوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا کرتے تھے اور وہاں صحافیوں سے آسانی سے مل لیا کرتے تھے۔
جوش میں انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ بھی کیا دن تھے جب وہ میڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کے طریقے تلاش کیا کرتے تھے۔
پتہ نہیں اس سے ان کا کیا مطلب تھا لیکن میرے لیے یہ سنیچر کی صبح کا سب سے پرلطف بیان تھا۔
کیا وہ سچ مچ پریس میٹ کرنے کو تیار تھے جہاں وہ سوالات سنتے اور کھل کر ان کے جواب دیتے یا وہ میڈیا سے بچتے رہیں گے اور بنیادی طور پر سوشل میڈیا پر ہی بھروسہ کریں گے کہ جہاں پر وہ بولیں اور دوسرے سنیں؟