’ ان حالات میں سیاح کشمیر میں رہنے اور آنے سے ڈرتے ہیں‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی جمعے کو ہلاکت کے بعد سے جاری تشدد سے کشمیر میں سیاحت کی صنعت شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔
بڑی تعداد میں سیاح کشمیر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ صحافی ماجد جہانگیر نے بتایا کہ اس کے سبب کشمیر کی سیاحت کی صنعت سے وابستہ لوگ کافی مایوس ہیں۔
کشمیر کی حالیہ پرتشدد لہر میں ابھی تک 32 لوگ ہلاک اور 1300 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ممبئی سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کشمیر آنے والے پرشانت کہتے ہیں کہ وہ مزید چند روز وہاں رہنا چاہتے تھے، لیکن کشمیر کے کشیدہ حالات کے سبب واپس جا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا: ’میں سات جولائی کو کشمیر آیا پھر نو جولائی کو حالات خراب ہوگئے تو ہم لداخ چلے گے اور کل وہاں سے لوٹے ہیں، لیکن ہم اب واپس جا رہے ہیں۔ ہم کچھ دن اور بھی رکنا چاہتے تھے، لیکن یہاں جس طرح حالات پیدا ہوگئے ہیں اس کے سبب ہم مجبور ہو کر واپس جا رہے ہیں۔‘
پرشانت ن ےبتایا کہ ’آج یہاں کھانا بھی نہیں ملا۔ یہاں ڈل جھیل پر ہمیشہ رونق رہتی تھی، لیکن آج ہر طرف ویرانی اور سناٹا ہے۔‘
سری نگر کی ڈل جھیل میں شكارا چلانے والے عزیز احمد کا کام بھی گذشتہ چار دنوں سے بند پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب تو سارے سیاح کشمیر سے بھاگ رہے ہیں۔گذشتہ چار روز سے میں نے کچھ بھی نہیں کمایا۔ حالات خراب ہونے سے قبل دن میں پانچ سو سے لے کر ایک ہزار بھی کما لیتا تھا۔ سیاح ان حالات میں یہاں رہنے اور آنے سے ڈرتے ہیں۔‘
’اگر کوئی اب یہاں ہے تو وہ خاموشی سے ہے، انھیں ڈر لگتا ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں، ہمارا کاروبار سیاحوں کی وجہ سے ہی چلتا ہے۔‘
بلوارڈ سرینگر میں ہوٹل چلانے والے فیضان کا کہنا ہے کہ چار دن پہلے ان کے ہوٹل میں رات کے 12 بجے تک سیاح کھانا کھانے آتے تھے، لیکن اب کوئی نہیں آ رہا ہے۔
فیضان نے کہا: ’ہوٹل کا کام کاج اسی دن سے ٹھپ ہوگیا، جس دن برہان وانی ہلاک ہوئے، اب تو بالکل سناٹا ہے۔ تمام سیاح واپس جا چکے ہیں، ہوٹل کی آمدنی اب صفر ہے۔‘
کشمیر سیاحت کے شعبہ کے ڈائریکٹر محمود احمد شاہ نے کہا کہ کشمیر آنے والے سیاحوں نے بکنگ منسوخ کرائی ہیں۔
کشمیر یونیورسٹی میں سیاحت کے شعبے کے پروفیسر اور انڈین ٹورزم کانگریس کے جنرل سکریٹری ریاض احمد قریشی کہتے ہیں کہ جس جگہ سیاسی بے چینی ہو وہاں زیادہ سیاحوں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔