خون کے ٹیسٹ سے رحم کے کینسر کی تشخیص
کیرولائین پریشو تحقیق کا حصہ بنی اور ان کے خیال میں خون کا ٹیسٹ فائدہ مند ہے
ڈاکٹروں کے مطابق ایسی خواتین جنہیں رحم کے سرطان ہونے کا خطرہ ہو اِن کا ہر چار مہینے بعد خون کا ٹیسٹ کیا جائے تو ان میں رسولیوں کی نشاندہی جلدی کی جاسکتی ہے۔
فی الحال اس بیماری کے لیے کوئی سکریننگ پروگرام نہیں ہے اور جن خواتین کو یہ سرطان ہونے کا خطرہ ہے اُنہیں اپنے رحم اور بیض نالی یعنی فلوپئین ٹیوب نکلوانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
جرنل آف کلینکل آنکالجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں 4,348 خواتین اس تجربے سے گزریں جن کے سرطان کی تشخیص ابتدائی مراحل میں کر لی گئی۔ بیماری کی جلدی نشاندہی سے علاج میں آسانی ہوجاتی ہے۔
فی الحال یہ واضع نہیں ہے کہ باقاعدگی سے خون کے ٹیسٹ کیے جانے سے زندگی کو خطرہ ٹل جائے گا۔
کیرولائین پریشو کا خاندان چھاتی اور رحم کے سرطان سے متاثر ہے۔ لندن سے باہر شمال میں ہیرٹفرڈشائر سے تعلق رکھنے والی تینتالیس برس کی کیرولائین میں جنیاتی نقص BRCA2 ان کے والدین سے منتقل ہوا۔
کیرولائین پریشو کو آپریشن کے ذریعے خطرے سے بچنے کا مشورہ دیا گیا، مگر رحم اور بیض نالی نکلوانے سے حیض بند ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے آپریشن تو کروانا ہی تھا مگر سکریننگ کے ذریعے مجھے اپنا خاندان پورا کرنے کا موقع ملا۔ میں نہیں چاہتی تھی کے35 برس پر حیض بند ہوجائے۔‘
’یہ بہت کم عمر میں ہوا اور جلدی شروع ہونے سے حواس، ہڈیوں اور دل پر مضر اثرات ہوتے ہیں۔‘
سکریننگ کے بغیر بس ایک ہی راستہ بچتا ہے جس میں مندرجہ ذیل علامتوں پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔
•پیٹ کا پھولنا
•پیٹ کی سوزش
•پیٹ اور ناف کے نیچے تکلیف
•بس تھوڑا سا کھا کر پیٹ بھر جانا یا بھوک مرجانا
•بار بار پیشاب آنا یا زور سے پیشاب آنا
خون کی مانیٹرنگ
ہر سو میں سے دو خواتین کو زندگی کے کسی موڑ پر رحم کا سرطان ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق میں کیرولائین جیسی خواتین پر خاص توجہ دی گئی جن میں ہر دس میں سے ایک کو اس سرطان ہونے کا خطرہ ہے۔ برطانیہ میں42 سینٹرز میں خواتین کے خون میںCA125 نامی کیمیکل کو مانیٹر کیا گیا۔
رحم کا کینسرخواتین میں پائے جانے والے سرطان میں ساتواں نمبر پر ہے اور ہر سال240,000 کیسز سامنے آتے ہیں
سال میں تین بار ڈاکٹروں نےCA125 کے خون میں توازن پر نظر رکھی۔ یہ کیمیکل رحم میں بنتا ہے اور اگر یہ ایک حد سے بڑھ جائے تو یہ سرطان کی علامت ہوتی ہے۔
خواتین کے سال میں ایک بار سکین کیے گئے اور جہاں ڈاکٹروں کو لگا کہ سرطان کا خطرہ ہے تو آپریشن کیا گیا۔ سکریننگ کے تین سال کے دوران اور آخری ٹیسٹ کے ایک سال بعد19 کینسرز کی نشاندہی کی گئی۔ ان میں سے10 کی ابتدائی مراحل میں تشخیص کی گئی۔ اس مرحلے کے پانچ سال بعد 18 کیسز میں رحم کے سرطان کا پتہ لگا۔ مگر فرق یہ تھا کہ ان میں صرف ایک ابتدائی مراحل میں تھا۔
سرطان کے علاج کا بنیادی اصول ہے کہ تشخیص اگر جلدی ہو جائے تو بچ جانے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
اس سکریننگ کے ذریعے تشخیص جلدی تو ضرور کی گئی مگر یہ تحقیق اتنے لمبے عرصے سے نہیں کی جاری رہی کہ وثوق سے کہا جا سکے کہ سکرینگ کے نتیجے میں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
آپریشن اب بھی بہترین حل ہے
گو کہ سکریننگ سرطان کی نشاندہی کرتی ہے، اگر خواتین آپریشن کروا لیں تو رسولی بننے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں گائناکولجیکل کینسر کی پروفیسر اوشا مینن جو محققین میں شامل ہیں کہتی ہیں کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ خواتین آپریشن کروالیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میرے نظریے سے خواتین حیض بند ہوجانے کے معاملے میں کشمکش میں پڑجاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہر چار مہینے بعد سکریننگ کرنا علامتوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے سے زیادہ بہتر ہے۔‘
’سکریننگ یقیناً بیماری کو ابتدائی مراحل میں پکڑ لیتی ہے مگر ہم یہ وثوق سےنہیں کہہ سکتے کہ ہم زندگیاں بچا رہے ہیں۔‘