ڈپریشن میں زیادہ کھانے سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
ماہرین کے خیال میں ہم بوریت، ذہنی دباؤ، بیچینی اور تھکن میں اکثر جذباتی ہوکر بہت کچھ کھانے لگتے ہیں۔
بوریت، ذہنی دباؤ، بیچینی اور تھکن بیشتر لوگوں کے غیر ضروری کھانے پینے کی عادات سے منسلک اثرات ہیں۔ برِٹش نیوٹریشن فاؤنڈیشن کے سروے کے مطابق ایسا خاص طور پر لاک ڈاؤن کے دنوں میں زیادہ ہوا ہے کہ ہم ذہنی دباؤ میں بہت سی ایسی چیزیں کھا رہے ہیں جو صحت کے اعتبار سے عام دنوں میں کھائی جانے والی چیزوں سے کم اچھی ہیں۔
ڈپریشن میں زیادہ کھانے کی وجوہات
ذہنی دباؤ انسان کی مشکل صورتحال حالات میں زیادہ کھانے کی اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ برطانوی ڈاکٹر عائشہ محمد کہتی ہیں کہ 'ہمارا جسم ہمارے پیچھے شیر کے دوڑنے اور دفترئ کام کی ڈیڈلائن کے نتیجے میں دباؤ میں فرق کرنا نہیں جانتا یے۔'
ڈائیٹیشیئن سوفی میڈلن کے مطابق 'جب آپ کسی قسم کے ذہنی دباؤ میں پوتے ہیں تو آپ کچھ ایسا کھانا چاہتے ہیں جو آسانی سے ہضم ہو جائے اور جلدی سے آپ کو طاقت کا احساس دلائے تاکہ آپ لڑ یا بھاگ سکیں۔۔۔ اور ایسی چھیزیں ہیں شوگر یا کاربوہائڈریٹس'۔
اس سروے میں شامل تقریباً دو تہائی برطانوی افراد کا کہنا تھا کہ لاک ڈاون کے دنوں میں ان کے غیر ضروری کھانے پینے کی سب سے بڑی وجہ وہ بوریت کو سمجھتے ہیں۔ محققین بوریت میں کھانے کو راہ فرار سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ بوریت میں بہت سارا صحت کے لیے مفید کھانا بھی کھایا جا سکتا ہے اگر وہ ذائقے میں اچھا ہو۔
اگر کبھی ہماری نیند پوری نا ہو رہی ہو تو بھی محققین کے مطابق ہم ہر روز تقریباً چار سو اضافی کیلوریز کھاتے ہیں۔ کیوں کہ ہم جاگتے رہنے کے لیے ایسی چیزیں کھاتے پیتے رہتے ہیں جو جلدی سے طوانائی دیتی ہوں، مثال کے طور پر کاربوہائیڈریٹز۔ میڈلن بتاتی ہیں کہ 'نیند ہمارے بھوک کے ہارمونز کو بھی بڑھا دیتی ہے۔'
کھانے کے بعد جسم میں ڈوپامین بنتا ہے، یہ وہ دماغی کیمیکل ہے جو خوشی کا احساس دلاتا ہے۔ کھانے پینے کی چند چیزیں، خاص طور پر وہ جن میں چربی یا شکر زیادہ ہوتی ہے، جسم میں معمول سے زیادہ ڈوپامین پیدا کرتی ہیں۔ اور اسی کو 'دا پلیژر ٹریپ' کہتے ہیں، یعنی خوشی کے احساس والا جال'۔ ایسا کہنا ہے 'دا پلیژر ٹریپ: ماسٹرنگ دا ہیڈن فورس دیٹ انڈرمائنز ہیلتھ اینڈ ہیپینس' نامی کتاب کے مصنف اور ماہر نفسیات ڈاکٹڑ ڈگلس لزلے کا ۔
یہ بھی پڑھیں:
آپ کی جبلت آپ سے کہتی ہے کہ 'آپ کم سے کم تکلیف اور پریشانی اٹھا کر زیادہ سے زیادہ سکھ حاصل کریں'۔ لیکن آپ اپنے دماغ کو سکھ پہنچانے والے ریسیپٹرز کو جتنی زیادہ بار جگائیں گے اتنا ہی اس کا اثر کم ہوتا چلا جائےگا۔
دباؤ میں آکر کھانے سے کیسے بچیں:
’فیل گریٹ لوز ویٹ‘ اور ’دا سٹریس سلیوشن‘ نامی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر رنگن چیٹرجی کے مطابق اپنے کھانے پینی کی عادات کو تین دائروں میں بانٹ لیں۔۔۔۔
مشکلات سے نمٹنے کے لیے ہمیں کھانے کے علاوہ دیگر راستوں پر غور کرنا چاہیے
احساس کی شناخت: جب بھوک لگے تو اپنے آپ سے پوچھیے کہ آپ بور ہو رہے ہیں، تنہائی محسوس کر رہے ہیں یا ذہنی دباؤ میں ہیں۔ اور اگر تب بھی لگے کہ بھوکے ہیں، تو کھائیے۔
کھانا : یہ سمجھیے کہ آپ نے کھانے کے لیے جس چیز کا انتخاب کیا ہے وہ پہلے سوال کے جواب یعنی اس احساس کے مطابق ہے جس سے آپ گزر رہے ہیں۔ اب بتائیے کہ کھا کر آپ کو کیسا لگا؟ پہلے سے بہتر، پہلے سے برا یا کچھ بھی فرق محسوس نہیں ہوا؟
کوئی اور راستہ: کیا آپ اپنی ذہنی الجھن یا جذبات پر قابو پانے کے لیے کھانے کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کر سکتے ہیں؟ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مثال کے طور پر یوگا،ورزش، غسل، سونا، کسی دوست سے فون پر بات کرنا یا سانس اندر باہر کھینچ کر بیچینی کم کرنے کی کوشش۔
کیا جذبات میں کھانے کا کوئی فائدہ بھی ہے؟
متعدد مواقع ایسے ہوتے ہیں جب ہم کھا کر بہتر محسوس کرتے ہیں۔ رات کا کھانا اور ساتھ میں فلم دیکھنے کا پروگرام یا بیکنگ کرنا جذباتی مسائل سے نمٹنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
غذائیت کی ماہر ریچل ہارٹلی کا خیال ہے کہ 'سوچ سمجھ کر کھانے سے آپ کھانے کے تجربے اور احساس کا مزا دیر تک یاد رکھتے ہیں، جبکہ دباؤ میں کھانے کا نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔'
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جذباتی ہو کر ضروری نہیں ہے کہ غیر مناسب چیزیں ہی کھائی جائیں۔
ریچل کا خیال ہے کہ 'کھانا ہمیشہ مسائل کا حل نہیں ہو سکتا ہے اور نا ہی مشکل صورت حال سے نمٹنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ اس لیے مشکلات سے باہر آنے کے لیے ہمیں کھانے کے علاوہ دیگر راستوں پر غور کرنا چاہیے۔'
یہ بھی پڑھیں:
اپنے ساتھ رحم دلی سے پیش آئیں
اگر آپ کو لگے کہ آپ ان دنوں زیادہ جذباتی محسوس کر رہے ہیں اور جذباتی وجوہات کے سبب کھا رہے ہیں، تو یاد رکھیے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سبب ہم ان دنوں غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں۔ ماہر خوراک پریا ٹیو کہتی ہیں کہ 'ان دنوں جذباتی ہوکر کھانے میں کوئی برائی نہیں۔'
پریا کا خیال ہے کہ یہ اپنا اور اپنے آس پاس لوگوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کا وقت ہے۔ اپنے جسم کو جتنا ہو سکے غذا سے بھرپور رکھیں اور جس کام میں خوشی ملتی ہے وہ کریں۔
حالانکہ آپ کی یہ کوشش ہمیشہ ہونی چاہیے کہ خوراک میں توازن برقرار رہے، لیکن آج کل تھوڑا بہت کم زیادہ چلتا ہے۔ بس کوشش کیجیے کہ خود کو احساس ندامت، بیچینی اور کسی غیر ضروری خوف سے محفوظ رکھیں۔ یہ بات خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو کھانے سے متعلق الٹے سیدھے خیالات سے پریشان رہتے ہیں یا کھانے پینے کی غلط عادات سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے حق میں رحم دلی سے پیش آئیے۔'